ہمارے ہاں ایک روائتی سوچ پائی جاتی ہے کہ لوگو ں کی قدر اداروں سے رخصت ہو جانے کے بعد ہی کی جاتی ہے چاہے یہ ادارے سرکاری ہو ں یا نجی، دوران ِملازمت بے قدری کا عنصر بہت عمومی ہوتا ہے لیکن یہ تاثرغلط ہے کیونکہ جس ریاست میں جب تک ایک بھی محب وطن شہری یا گروہ ہو گا وہ قومی اداروں میں خلوص نیت اور جا نفشا نی سے خدمات انجام دینے والے فرزندان وطن کی قدرو منزلت کو کبھی گرنے یاکم ہونے نہیں دے گااور ہمارے معاشرہ میںایسی بہت سی مثالیں موجود ہیںجو اپنے شعبہ میں گراں قدر خدمات انجام دینے والو ں کوخراج پیش کرنے میںدیر نہیں لگاتے چند روز قبل لکھاری قبیلے کے دوستوں شہزاد مغل اور ندیم بھٹی نے کا لمسٹ کونسل کے پلیٹ فارم پر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کی خدمات کے اعتراف میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں میرے جیسے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والوں کی شر کت بھی ایک اعزاز کی حیثیت رکھتی ہے اس تقریب میں شریک ہر فرد نے اپنی اپنی حیثیت اور سوچ کے تحت ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ۔بعد میں ان کو ایوارڈ سے بھی نوازاگیا ۔مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل گوندل صاحب سے برادر شہزاد مغل کے ہمراہ ایک تفصیلی نشست ہوئی تو اس میں میں نے انہیں انتہا ئی فکر مند اور بے چین پایا اور یہ فکر ان کی اپنی ذات یا نوکری کی نہیں بلکہ بین الااقوامی سطح پرپاکستا ن کے وقار اور مر تبہ کی تھی جب بھارتی لا بی چند پاکستانی ضمیر فروش ڈاکٹروں کیساتھ مل کر مڈل ایسٹ میں کام کرنے والے ہزاروں پاکستا نی ڈاکٹر وں کی ڈگریوں کو جعلی اور غیر مصدقہ قرار دینے پر تلی ہوئی تھی اور پاکستان کی معتبر طبی درسگاہ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان کی ساکھ کو گرانے کی گھنائونی سازش میں ملوث تھی ۔یہ عرب ریاستوں میںکام کرنیوالے ان تمام پاکستانی ڈاکٹروں کا روز گار ختم کروانے کی بھی ایک گھٹیاچال تھی اور ایسے موقع پر قومی سوچ کے ہمراہ اپنی کمیونٹی کے حق میں کھڑا ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن جانا ایک زیرک اور دور اندیش محب وطن پبلک سرونٹ کی نشانی ہے تب گوندل صاحب نے قلم کی شمشیر کو دشمن کے پروپیگنڈہ کو ذائل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی تک کا سفر جو کہ چند دہایئوںپرنہیں بلکہ صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے اور درجہ بدرجہ کامیابیوں کیساتھ رقم ہے اور ان داستانوں میں بہت سے اساتذہ کی جانفشانی ،لگن اور ولولہ شامل رہا ہے لیکن مجھے کسی داستان یا ماضی کی بات نہیں کرنی بلکہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی تعلیمی امارت سازی میں حالیہ کردار ادا کرنیوالی نمایاں شخصیت پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کے بطو ر وائس چانسلر کارہائے نمایاں کااظہار کرنا ہے۔ کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی پاکستانی تاریخ میں قدیم ترین طبی درسگاہ ہی نہیں بلکہ اعلی طبی تعلیمی اقدار اور روایات کی امین بھی ہے اور ان روایات کو برقرار رکھنے میں اس مقدس درسگاہ میں بہت سے پرنسپل صاحبان آئے جنہوں نے اپنے اپنے طور پر اس کی ترقی میں حصہ ڈالا۔ گوندل صاحب ان سب میں منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ وصف خاص سمجھ لیں کہ وہ بیک وقت ایک ماہر تعلیم اور شفیق استاد کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم بھی ہیں۔انہوں نے یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کا چارج سنبھالتے ہی جو نمایاں کام سر انجام دیئے انکی ایک طویل فہرست ہے ۔ کورونا کے دوران پاکستان بھر کی طبی درسگاہوں اور ہسپتالوں میں ان کا قائدانہ کردار سب سے نمایاں رہا ۔ جس پر اس وقت کی حکومت کی جانب سے ڈاکٹر صاحب اور کے ای ایم یو کی تعریف اور پذیرائی بھی کی گئی ۔ تعلیمی معیار کے حوالے سے عالمی سطح پرکنگ ایڈورورڈ میڈیکل یونیورسٹی کامعیار بلند کرنا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیلی میڈیسن پر کام کروانا بھی ان کے اہم کارناموں میں شامل ہے چنانچہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے مختلف بیماریوں کے علاج کیلئے یومیہ بیس ہزار کے قریب مریض آن لائن اپویئنٹ منٹ لیکرفری مشورے اور بیماری کی تشخیص کے ساتھ علاج بھی کرو ا رہے ہیں جو کہ دوسرے ممالک میں بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ دستیاب ہے ، گوندل صاحب بیک وقت کے ای ایم یو کے وائس چانسلر ہونے کے ساتھ ساتھ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے سربراہ بھی ہیں ۔انہوں اپنے دائرہ کار کے اندر آنیوالے وسائل کو اداروں کی بہتری کیلئے استعمال کیا جس کی قدرت اور مہارت کم سربراہان ادار ہ کے پاس ہوتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ایک آفیسر کے ساتھ اس کی ٹیم شانہ بشانہ متحرک اور ذمہ دار ہو اور ڈاکٹر صاحب کے پاس یہ گرُ ہے کہ انکی ماتحت ٹیم ان کی معاونت کیلئے موجود ہے ۔ گوندل صاحب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کا ہمیشہ قومی و بین الاقوامی سطح پر مغربی لباس کی نسبت قومی لباس زیب تن کرنا ہے جو کہ جذبہ حب الوطنی کی عمدہ مثال ہے۔اب جبکہ گوندل صاحب کی ریٹائیرمنٹ کا وقت قریب ہونے کو ہے تو لازم ہے کہ ان کو عزت و وقار کے ساتھ رخصت کیا جائے۔