نیرو بانسری بجا رہا تھا، روم جل رہا تھا۔ جلتے جلتے روم کے شعلوں کو دیکھتے ہوئے ہی رکا ہوتا۔ عوام کی آہ و بکا ہی سن لی ہوتی لیکن نہیں۔ بانسری زہر قاتل ہے، یا بے حسی کا زہر، میرے خیال سے یہاں بانسری علامت رہی ہوگی۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ نیرو نے سونے کا محل تعمیر کرنے کے لئے جلا دیا۔ تو اس صورت میں بھی بانسری اس کو بے حسی کا چورن دے رہی تھی اور وہ غفلت میں ڈوبا روم کے روم روم کو جلتا نہ دیکھ رہا تھا بلکہ سروں سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔ سیاستدان اور عوام میں گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کی سب سے اچھی چیز یہ تھی کہ وہ “نیرو “نہیں ہوسکتے ۔ انہیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی جلتے روم کو دیکھنا ہوتا ہے۔ پانی نہ بھی ڈالیں تو دیکھنا تو پڑتا ہے ورنہ عوام میں سے جو جلنے سے بچ جائیں وہ ان سیاستدانوں کو سونے کا محل تعمیر کرنا تو درکنار سونے بھی نہیں دیتے۔ اسی لئے سیاستدانوں کو بانسری بجانا بھی نہیں آتی اور نہ وہ اس عظیم فن کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔
شاید اندازے غلط ہورہے ہیں تجربہ کار فیل ہورہے ہیں ۔ حکومت کو ڈر ہے کہ مشکل فیصلہ کرلیا تو خان صاحب کی مقبولیت نگل جائے گی اور عمران خان کمال مہارت سے کارکردگی نفی کرکے موجودہ حکومت پر مہنگائی کی ضرب بھی لگا رہے ہیں۔ کردار بدل گئے ہیں مہنگائی کا رونا رونے والے قیمتیں بڑھانے کے فضائل پر اور فضائل گنوانے اور وطنِ عزیز کو سستا ترین ملک قرار دینے والے مہنگائی کو شہباز حکومت کی ناکامی پکار کر دامن جھاڑ رہے ہیں ۔ اسد عمراور حماد اظہر ٹویٹ پر ٹویٹ کررہے ہیں۔ شہری دیکھ رہے ہیں ۔ یہ تمام سیاستدان بانسری نہیں بجا سکتے، لیکن جانے کیوں عوام کو بتاتے پھررہے ہیں کہ بانسری ہم نہیں بجا رہے ۔ یہ سر جو سنائی دے رہے ہیں یہ ہمارے نہیں، ہم تو ہیں ہی بے سرے، بے تالے۔ جانے کیوں انہیں عوام کو وضاحتیں دینی پڑرہی ہیں ۔ تمام سیاستدان عوام کو باور کرارہے ہیں کہ دراصل بانسری ان کا مخالف بجا رہا ہے۔ اپنے اپنے تئیں خود کو عوام کا ہمدرد اور مخالف کو “نیرو” ثابت کرنے پر پورا زور لگا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت جل رہی ہے جس کی تپش سے لوگوں کے پاو¿ں جل رہے ہیں اور آسٹریلیا کے جنگلوں میں آگ لگ جائے تو کینگرو ماں اپنے بچے کو ایک وقت تک بچا کررکھتی ہے اور پھر جب اس کے پاو¿ں جلنے لگتے ہیں تو اسی بچے کو زمین پر رکھ کر اس پر کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہ سیاستدان عوام کے بچے بھی نہیں ہیں اس لئے معیشت کی آگ میں عوام انہیں خود ہی غرق کردیں ۔ یہ تو سچ ہے کہ بانسری کوئی نہیں بجا رہا کیوںکہ سیاستدان، جیسے کہ بتایا بانسری نہیں بجا سکتے ورنہ عوام نگھل جائے۔
معاشی صورتحال مشکل فیصلے مانگ رہی ہے۔ ملک میں الیکشن کا ماحول بن رہا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ گھمسان کا رن آج نہیں تو کل پڑنا ہے۔ تمام جماعتیں اپنے اپنے ووٹ بینک کو جھنجھوڑ رہی ہیں لیکن تاثر پھر بھی وہی ہے کہ بانسری ہم نہیں بجا رہے۔ عوام کو اب آنکھیں کھولنی چاہیے۔ نیرو، بانسری اور سیاستدانوں کو کھونٹی سے باندھ کر اکثریت عوام جو کہ غریب ہے اس کی فلاح کے لئے، ملک کی بقائ اور استحکام کے لئے اہم فیصلے کرانے ہیں۔ اگلا الیکشن قوی امکان ہے کہ شخصیات کے درمیان ہوگا لیکن جب تک مدعا کارکردگی نہیں ہوگی، آئندہ کی حکومت پر کارکردگی کا خوف نہیں ہوگا۔ اور اسے یہ تاثر دینا بھی غیر ضروری لگے گا کہ بانسری وہ بجا رہے ہیں یا ان کے مخالف ۔ شخصیات کی بنیاد پر ہوئے الیکشن کے بعد بھی نئی حکومت کو بری سے بری کارکردگی پر اپنے “بڑے” کے کردار اور چہرے کی مناسبت سے دوبارہ آنے کا موقع مل جائے گا۔ یوں یہ سلسلہ کھبی ختم نہیں ہوگا جو تاحال جاری ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہی ہے اور جاتی رہے گی۔ لیکن یاد رکھئیے ملک چہروں سے نہیں عمل سے، کارکردگی سے چلتے ہیں اور ترقی طرزِ عمل میں تبدیلی سے ہی ہوسکتی ہے ورنہ بانسری تو “نیرو” بھی بجا لیتا تھا اور سکے تو “نظام سقہ” نے بھی چلا لئے تھے۔