داد صدیقی کی نظموں کی یہ کتاب ان کی ادبی زندگی کا ایک اور سنگ میل ہے، کسی تخلیق کار کی زندگی اور اس کا فن اس کے سماجی کرادر کے گرد گھومتا ہے، داد صدیقی کے فکر وفن کا محور بھی سفر ہے محبت ہے اور خدا ہے، اس کے درمیان سنگ میل پہ کربلا دوستوں کی محبت ایثار اور خبرنگاری کا اعتبار ہے ۔ ایک قلم کار اپنے مصروف پروفیشن کی وجہ سے شاید تخلیق کو زیادہ وقت نہ دے پائے ۔لیکن زندگی اور سیاست اور نظام کا چلن اس کے سامنے ایک سکرین پہ ڈسپلے ہو رہاہو تو وہ اس سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اس تاثر کو اپنی تخلیق کے کینوس پہ اتارتا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم داد کے ہاں بھی موجودہ حالات اور مسائل کا گہر ادراک اور اظہار دیکھتے ہیں، بنیادی طور پہ وہ نظم کے شاعر ہیں، ان کی نظمیں ان کی قلبی کیفیات کا عکس ہیں، اور اس مشاہدے کی تجسیم ہیں جس سے وہ گزرے ۔محبت کی آبیاری اور اس دشت کی سفر گردی نے ان کے بالوں میں چاندی اور لہجے میں نرماہٹ سمو دی ، سفر حضر میں اور کوچ قیام میں بدل گیا لیکن ان کا شوق سفر اور ویرانوں کو لوٹنے کی ہوس کم نہیں ہوئی، یہ پہاڑوں کے سنگ زندگی کی پہلی بہاریں دیکھنے والے کب ان اداس شاموں اور نیلے آسماں کی سرگوشیوں کے سحر سے نکل سکتے ہیں، نیلم ان کا پہلا عشق ہے، کشمیر اس عشق کا رستا زخم ہے۔ لیکن ان کا دوسرا عشق ان کے ہاتھ پاو¿ں باندھ گیا۔ اب وہ شہر اقتدار کے کوچوں میں اپنی لیلائے زندگی کے ساتھ حرف و معنی کی مشاطگی سے جڑے ہیں، ان کی نظموں کا اپنا ہی ایک رنگ اور آہنگ ہے، جس میں دل کے درد اور یادوں کے پھول ہیں۔ ان کے معنی میں خوشبو ہے اور ان کی فکر میں ایک گہرا دکھ ہے ، وہ دکھ جو ان حالات میں ہر حساس تخلیق کار کے ہاں در آتا ہے، اپنے غموں کے ساتھ غم دہر کا قضیہء بھی ہم نے جینا ہے سیاست اور نظام کے بخشے زخم بھوک نفرت اور عدم برداشت کے رویوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، یہ حالات ہمیں ایک قوم کی حثیت سے جس صورت حال سے دوچار کر رہے ہیں ۔ اس کا ادراک ایک فن کار سے زیادہ کون کر سکتا ہے
داد کی نظموں سے یہ مختصر انتخاب اس عصرِ تلبیس میں ان کی فکر ودانش کے چراغ ہیں۔
ہم نے اس محبت کی
یونہی
آبیاری کا کشت کاٹا ہے
ہم مسافر ہیں
سفر کو پیماں کر گئے ہیں
تری اک نظر
میرے رتجگوں کا ثمر
اپنی جان سے گئے
کسی کی جان ہوگئے
امید کی شاخ
یقین کے شجر سے پیوستہ ہے
نویدِ بہار ہے
یہ حبس کا موسم
تمہیں شعورِ عصر
نہیں ہے
تم کہیں سے مانگ لاو¿
میرے مقدر کے غاصب
عجیب بے ترکیب بد تہذیب
لفظ و لہجے کا سم پھونکتے ہیں
فقط گالیاں بھونکتے ہیں
وہ گرد پر سوار
آندھیوں کا کوڑا لیے
کوہ قاف کے دیو نے
عذاب کی صورت میں بھیجا ہے
یہ درد لا علاج ہے
ارے اے چارہ ساز
یہی میرا علاج ہے
پیاس سے جلتے صحراو¿
کچھ دن میرے لہو سے پیاس بجھاو¿
وہ بارش کے سنگ
بادل پہ رقص
کرتی آئے گی
میرا اس سے وعدہ ہے۔
کہ اس نے سانس کے ٹوٹتے سمے تک آنا ہے
منصف کی آنکھ بادی النظر کی رازداں ہے
عدالت کا دل دائیں طرف ہر جذبے سے بے پرواہ
دماغ ہمیشہ اسٹاک ایکسچینج کی طرح گرتا بڑھتا
کاش آسماں سے کوئی جیمر اترتا
کوئی مسیحا لٹھ لیئے آتا
ہماری آنکھیں
ان بے حس
بد روحوں کو سکرین پر
بکواستی نہ دیکھتیں
لمبی ناکوں کا ایک ہجوم آمد آیا ہے
ہر قسم رنگ اور فیشن کی ناکیں
محبت زندگی کا محور اور کائنات کی بائنڈنگ فورس ہے، ان کی نظم کی یہ مختصر لائنز اس کیفیت کا جامع اظہار ہے
محبت کل خدائی
محبت بس خدا ہے
نثری نظم بارے ان کی یہ پیشگوئی ان کی اس صنف سے گہری وابستگی کی علامت ہے،
نظم کا
کل بھی
آج اور پھر صدیوں کا ہے راج
نفرتوں اور عصبیتوں کے رجحان میں ہم ان کے اس نصب العین کے ساتھ ہیں۔
محبت کل خدائی
محبت بس خدا ہے
سلامت رہیں محبت امن اور اخوت کے شاعر....کہ دنیا آج سب سے زیادہ محبت امن اور اخوت کی محتاج ہے۔