یہ جھوٹے نہیں تو اور کیا ہے.

انسان بھی کیا عجیب چیز ہے جو دولت اور شہرت کو حاصل کرنے کے لیے یہ بھول جاتا ہے کہ میرا دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا۔؟ اس بھول بھلیے میں یہ دولت اور شہرت کے حصول کے لئے جھوٹ فریب منافقت اپنے سے کمزور پر چڑھ جانا اور طاقتور کے سامنے جھک جانا جائز اور ناجائز سب کچھ کر گزرتا ہے اس دوران جب ان چیزوں کی بھوک میں اضافہ شدت اختیار کر جاتا ہے تو پھر یہ انسان انسان نہیں رہتا اس کی ہر طرح کی بھوک میں اضافہ ہو جاتا ہے کچھ اور ہی بن جاتا ہے اور یہ بھوک بھی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ پیٹ کی بھوک، دولت کی بھوک، اقتدار کی بھوک، جسم کی بھوک، شہرت کی بھوک وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی بھوک حد سے بڑھ جائے تو انسان اندھا ہو جاتا ہے، اس کا غلط صحیح کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہ حضرت انسان دنیا میں دولت اور شہرت کمانے کی خاطر اپنی آخرت کو بھول جاتا ہے تو پھر یہ دنیا میں ہوتے ہوئے اپنی زندگی کی گاڑی کو جھوٹ اور منافقت کے سر پرچلاتا ہے ذرا اس بات پر غور کریں کہ ایک مرتبہ حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ کا کسی قبرستان سے گزر ہوا تو اس وقت ان کے ہمراہ کچھ انکے مریدین بھی تھے جب آپ قبرستان میں پہنچے تو ہاتھ بلا کر قبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سب کے سب جھوٹے اور مسکرانے لگے اسی طرح کہتے ہوئے قبرستان سے گزر گئے جب باہر نکلے تو مریدین نے کہا کہ حضور آپ نے کچھ کلمات قبرستان سے گزرتے ہوئے فرمائے تھے جو ہماری عقل سے بالاتر ہیں تو آپ نے کہا کہ جب یہ لوگ دنیا میں تھے تو یہ کہتے تھے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی عقل اور طاقت سے بنایا ہے یہ گاڑیاں کوٹھیاں اور کاروبار اولاد سب کچھ میری محنت کی کمائی ہے ان پر ہنسی مجھے اس لیے آئی کہ یہ لوگ دنیا میں تو یہ کہتے رہے لیکن جب دنیا سے قبرستان میں پہنچے تو یہ سب کچھ وہاں چھوڑ کے آ گئے جو انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے بنایا تھا میں کہتا ہوں کہ اگر وہ ان کا تھا تو وہ یہاں آتے ہوئے اپنی ہر چیز کو اپنے ساتھ لے کر آتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ سب کچھ ان کا نہیں تھا اب بتائیں یہ جھوٹے نہیں تو اور کیا ہے یہ بات جب میں نے اپنے ایک دوست حاجی معراج دین فیض باغ لاہور کو سنائی تو انہوں نے اس کو اپنے دل پر نقش کر لیا اب وہ جہاں بیٹھتے ہیں کسی بھی جگہ جاتے ہیں کاروبار میں ادھر ادھر ہر کسی کو یہ بات ضرور سناتے ہیں بات صرف سمجھنے کی ہے یہ دنیا تو عارضی طور پر ہے انسان کا اصل ٹھکانا تو کہیں اور جگہ پر ہے یہاں پر ہم جو کچھ بنا رہے ہیں عزت دولت شہرت یہ سب کچھ بے کار ہے صرف اعمال کو ٹھیک کرو جو قبر میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور ڈرو اس ذات الہی سے جس نے آپ کے ہمراہ دو فرشتے جن کو کرامین کاتبین کہا جاتا ہے جو دن رات ہر شخص کے ساتھ رہتے ہیں جو ہم سب کے ساتھ لگائے ہوئے ہیں اور یہ فرشتے سب کی نیکیاں اور گناہ تحریر کرتے ہیں ان کی لکھی ہوئی کتاب بروز حشر کو کھلے گی جسے جب یہ انسان پڑھے گا تو پھر یہ انسان کہے گا کہ اے اللہ یہ کتاب تو نے کہا بیٹھ کے لکھوائی جس نے نہ تو ہماری دنیا کی چھوٹی بات چھوڑیں نہ بڑی سب کی سب تحریر کردیں اس لیے ہر انسان کی جو ذمہ داری ہے اس کو نبھانا چاہئے

ای پیپر دی نیشن