مذہب اسلام نے ہر رشتے کے حقوق وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیئے ہیں۔ اد ب و آداب کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔جس میں سرفہرست والدین کے حقوق اور ان کا ادب ہے۔ہمارے معاشرے میں ماں کا مقام و مرتبہ ہر لحاظ سے اجاگر کیا جاتا ہے، لیکن باپ کا مقام کسی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے،جبکہ والد مقام و مرتبہ کے لحاظ سے گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور پورے کنبہ کی پرورش کی اہم ذمہ داری سر انجام دیتا ہے۔ وہ دنیا کی ٹھوکریں کھاتا ہے اپنا خون پسینہ ایک کر کے کماتا ہے اور لا کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کے ذمہ خاندان کی پرورش رکھ دی ہے۔جن گھروں میں باپ نہیں ہوتے وہ کن حالات سے دوچار ہیں اس کا اندازہ ہم سب کر سکتے ہیں۔ یہ بات ذہین نشین رہنی چاہئے کہ قرآن پاک کے احکامات اور فرامین رسول ? میں والد اور والدہ دنوں کی خدمت و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے ان کے ساتھ احسان کا معاملہ اختیار کرنا چاہئے۔اگر وہ ضعیف ہو جائیں تو ان کے سامنے ”اف“ تک نہ کہا جائے۔والدین کے ساتھ ادب اور احترام سے پیش آنا ایک بڑی نیکی ہے۔المیہ یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ دین سے دور ہو چکا ہے،اور دین سے دوری کی وجہ سے پستیوں میں کہیں جا گرا ہے۔یقینا والدین کواللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے سب سے بڑی دولت قرار دیا جا سکتا ہے۔اگر کسی کے پاس یہ نعمت ہے اور وہ اپنے والدین کی خدمت کر رہا ہے تو یقین جانیں وہ دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کما رہا ہے،کیونکہ والدین کی دعائیں آپ کو دنیا و آخرت میں کامیاب بنادیتیں ہیں۔
اس حوالے سے بلاشبہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد والدین کو یاد کرنااوران کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔آج آٹھ جون کا دن ہے۔آج ہی کے دن 2003میں میرے والد محترم اکرام الحق اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے تھے۔آج ان کی بیسویں برسی ہے۔دن کیسے اتنی جلدی گزرے معلوم ہی نہیں ہوا۔ مگر یہ بات حقیقت ہے کہ ان کی کمی آج بھی محسوس کرتا ہوں اور پہلے سے زیادہ محسوس کرتا ہوں۔میں والدکی خدمت سے محروم رہا اس کا افسوس مجھے زندگی بھر رہے گا۔ ان کے ساتھ گزرے لمحات میری زندگی کے ناقابل فراموش حصہ ہیں۔الحمد اللہ آج ہم خود صاحب اولاد ہو چکے ہیں۔اپنے بچوں کی حرکات و سکنات اور شرارتیں دیکھتے ہیں تو اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔
ابو جان 1938میں بھارت کے علاقے امرتسر میں پیدا ہوئے۔ وہ بدر الدین کے پڑپوتے، رحمت خاں کے پوتے اور محمد شریف کے بیٹے تھے۔دادا جان محمد شریف علاقے میں جانے پہچانے ٹھکیدار تصور کئے جاتے تھے۔میری پھوپھی جان بتایا کرتیں تھیں کہ دادا جان نے پاکستان بننے سے قبل لاہور کنال کی تعمیر میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ خوشحالی اور علاقے میں بھر پور اثر و رسوخ کی وجہ سے والدصاحب کی پیدائش پر پورے گاو¿ں میں جشن منایا گیا، مٹھائی تقسیم کی گی۔امرتسر میں پورا خاندان آباد تھاجو کہ 1947میں ہجرت کر کے پاکستان آگیا۔ہجرت کا یہ سفر لاکھوں خاندانوں کی طرح ہمارے خاندان کے لئے بھی مشکلات کے پہاڑ اور آزمائشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ لے کر آیا تھا۔راستے میں سب کچھ لٹ گیا، خاندان تیتر بیتر ہوگیا اور رہی سہی کسر آپسی چپقلش نے پوری کر دی۔خوشحالی کسمپرسی کی نذر ہو گی۔جب خوشحالی سے غریبی آتی ہے تو اپنے ساتھ دستوں اور دشمنوں کی پہچان بھی لاتی ہے۔ہمارے خاندان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، دادا جان کا سارا کاروبار تباہ ہو گیا۔ دوستوں نے منہ پھیر لیا۔حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے گے۔
والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ وہ پاکستان بننے سے قبل اپنے بچپن میں بھینسیں لے کر نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ ٹھوکر نیاز بیگ آ جاتے تھے،کیونکہ دادا جان لاہور شہر میں ٹھکیداری کیا کرتے تھے ان کی رہائش ٹھوکر پر واقع محکمہ نہر کے گھرمیں ہوا کرتی تھی، تو والد صاحب نہر والے بنگلے آ جاتے تھے۔والد صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ٹھوکر نیاز بیگ سے حاصل کی۔ وہ دوسرے بچوں کی طرح روایتی نہیں تھے بلکہ سنجیدہ طبع اور ذہین طالبعلم تھے۔پانچویں اور آٹھویں کلاس میں وظائف حاصل کئے۔ ان کی انگریزی اور اردو بہت اچھی تھی۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑی کلاسوں کے بچوں کو بھی با آسانی پڑھا لیتے تھے۔ابو جان اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ابو سے چھوٹا ایک بھائی اسلام الحق اور تین بہنیں تھیں۔بھائی اور ایک بہن وفات پا چکے ہیں۔والد صاحب 1978میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوئے۔جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد (مرحوم) اور قاضی حسین احمد (مرحوم)،سابق نائب امیر چوہدی رحمت الہی(مرحوم)، سید منور حسن (مرحوم)،اسلم سلیمی، محمد ابرار، رشید احمد اور دیگر کے ساتھ طویل عرصہ تک کام کیا۔وہ خاموش طبع،نرم دل اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بھی معاف کر دینا ان کی شخصیت کو معتبر بنا دیتا تھا۔ میں گواہ ہوں ایسے بہت سارے واقعات کا جن پر انہوں نے ہمیشہ بردباری کا مظاہرہ کیا اور در گزر سے کام لیا۔ اللہ اور اس کے رسول ? کی رضا مندی کا حصول ہمیشہ ان کی زندگی کا مقصد رہا۔میں نے اپنی زندگی میں ابو جان کو کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔پرہیز گار اور متقی تو تھے ہی مگر میں نے ان کا قرآن پاک سے جو لگاو دیکھا ہے وہ قابل تعریف تھا۔اگر میں یہ کہوں کہ ابو جان بہت اچھے انسان، بہت اچھے دوست، بہت اچھے بھائی، بہت اچھے خاوند اور بہت اچھے دوست تھے تو غلط نہیں ہو گا۔وہ واقعی میں ایک بہترین شخصیت کے مالک انسان تھے۔چچا منظور حسین نظامی، چچا صوبہ سمیت ان کے لڑکپن کے دوست آج بھی ان کو بہت یاد کرتے ہیں اور ان کے عزت و احترام کے صدقے ہمیں دعاوں سے نوازتے ہیں۔ انہوں نے دنیا میں جتنا بھی وقت گزارا اس میں ہر رشتہ کو اہمیت دی او ر اللہ کے فصل و کرم سے خوش اسلوبی سے نبھایا۔تھوڑے وسائل میں صبر شکر اور اللہ کی رض?ا پر راضی رہنا جیسی صفات بہت کم لوگوں میں نظر آتیں ہیں اور وہ ان میں سے ایک تھے۔ہم نے ان کو بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی مطمن دیکھا۔
ان کی سادگی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کو کچھ اس طرح ہے کہ لڑکپن میں ابو جان کو نیوی میں بھرتی ہونے کا بہت شوق تھا اور اس کی بنیادی وجہ نیوی کا سفید رنگ کا یونی فورم تھا۔اپنے ایک دوست کے ساتھ نیوی میں بھرتی ہونے کے لئے کراچی چلے گے۔دوست چلاک تھا کراچی پہنچنے پر نیوی بھرتی سنٹر جانے کی بجائے دوست نے ابو جان کو بردہ فروشوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور خودوہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ جن لوگوں کے پاس فروخت کیا گیا تھا وہ پٹھان تھے۔ ابو جان نے وہاں تقریبا دو ماہ تک مشقت کی، ان کے ساتھ کافی سارے دوسرے لوگ اور بھی تھے جو اسی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں سے محنت مزدوری کرنے کراچی پہنچے تھے مگر کسی نہ کسی طرح ان بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ گے تھے۔ایک دن وہ پتھر توڑ رہے تھے کہ میرے نانا جان محمد لطیف جو اس وقت آرمی میں تھے اور کراچی میں تقینات تھے انہوں نے ابو جان کو پتھر توڑتے دیکھ لیا۔پٹھانوں کے قبضہ میں دیکھ کر وہ ششدر رہ گے۔پٹھے پرانے کپٹرے، شیو بڑھی ہوئی، برا حال، پہلی نظر میں پہچان میں نہیں آرہے تھے، نانا جان نے سوچا کہ پہلے کنفرم کر لیا جائے کہ واقعی یہ اکرام ہے یا کوئی اور۔ لہذا انہوں نے میرے دادا جان کو خط لکھا، جواب میں دادا جان نے کنفرم کر دیا کہ وہ کراچی نیوی میں بھرتی ہونے کے لئے گیا ہے۔ جس پر ناناجان کو پختہ یقین آ گیا۔ اس طرح نانا جان نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ان کے ٹھکانہ پر دھاوا بول کر بردہ فروشوں سے تمام لوگوں کو چھڑوایا۔
ابو جان اور چچا جان دنوں کی شادی ایک ہی روز اور ایک ہی خاندان میں 1980میں ہوئی تھی۔انہوں نے والدہ کے ساتھ 23سال گزارے۔ایک مرتبہ میں نے والد صاحب سے پوچھ لیا کہ ابوجان آپ جماعت اسلامی میں ہی کیوں آئے اور یہاں سے کسی اور جماعت میں جانے کا کبھی کیوں نہ سوچا۔تو ابوجان نے جواب دیا کہ ”پورے ملک میں جماعت اسلامی جیسی جماعت کوئی اور نہیں ہے،اگر کہیں اس جیسی جماعت نظر آ تی ہے تو بتائیں“۔ میں لاجواب سا ہو گیا۔ وہ آخری دم تک منصورہ میں ہی رہے۔ آج والد اور والدہ دونوں ہی اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں، ان کی وفات پر اکابرین جماعت نے جن الفاظ میں ان کوخراج تحسین پیش کیا وہ مثالی تھا۔میرے والدین کی نماز جنازہ مولانا عبد المالک نے پڑھائی اور وہ علامہ اقبال ٹاون کے قبرستان میں مدفن ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امی اور ابو جان کو اپنی رحمتوں کے سایے میں رکھے۔ آمین
والد گرامی اکرام الحق کی یاد میں
Jun 11, 2023