آئین فطرت سے باتیں کریں....!!

وقفہ کیوں ضروری ہے؟ اس پر بات ضرور ہو گی، چلیں ابھی اس پر بات کرتے ہیں کہ کیا پیسہ اور عہدہ انسان کو سکون دیتا ہے یا وہ ذات یہ سب کچھ بعض لوگوں کو سزا کے طور پر دیتی ہے جس کا اندازہ گزرتے وقت کے بعد ہوتا ہے۔ سیاسی حکمران، چیف جسٹس اور سپہ سالار صاحبان جو گھر جا چکے ہیں کچھ تو دنیا سے گزر چکے۔ ان میں بعض وہ بھی ہیں جنہیں اقتدار کے دوران اور بعد میں برے القابات سے نوازا جاتا ہے وہ جب ریٹارڈ ہو کر فیملی کے ساتھ یا اکیلے یا عمرہ ادائیگی کیلئے جاتے ہیں مگر وہاں بھی برے القابات انکا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ جیسے سابق وزیراعظم اور وزرائ کو عمرے کے دوران دیکھا گیا۔ایسا ہی منظر سابق چیف جسٹس کیساتھ دیکھا گیا جب ایک شادی ایونٹ میں انہیں ایک وکیل کی طرف سے ڈیم فنڈز کی بابت تلخ فقرے سننے پڑے....!! پیسوں پر فقرے کسے۔ جناب نے جواب بھی دیسی زبان میں دیا۔ جس پر شرمندہ دلہن دولہا والے ہوئے۔ایسے ہی ایک سابق چیف ریٹارمنٹ کے بعد دیار غیر میں گھر کی سیڑھی پر بیٹھے سستا رہے تھے کہ” شیطان“ پہنچ گیا وڈیو بنائی ، برے القابات سے نوازا۔ انہیں دیکھ کر عام انسان شکر ادا کرتا ہے کہ اچھا ہوا مجھے بڑے عہدے سے نہیں نواز گیا مجھے نارمل رکھا ورنہ میرے ساتھ بھی آج یہی سلوک ہو رہا ہوتا مجھے بھی یہ سزا ملتی اور برے القابات سے نوازا جاتا۔ سچ کہا ہے جزا و سزا انسان کو اس کے اعمال کی بنا پر اسی جہاں میں بھی ملتی ہے ، یقینا اگلے جہاں میں بھی ملےگی۔ لہذابے چین رہنا اپنی نیندیں حرام کرنا نا جائز طریقے سے پیسے بنانا اور دن رات کام کرنا پلیز بند کریں۔یہ سوچنا ہو گا کہ ہمیں پیسوں کے پیچھے بھاگنا چاہیے یا اپنی صحت اور عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔ فطرت کہتی ہے اے انسان تم دن رات کام نہیں کر سکتے ہو۔ دنیا میں ایک ریسرچ کے بعد یہ طے بھی ہو چکا ہے کہ انسان کو آٹھ گھنٹے کے کام میں وقفہ لینا لازم ہے۔ انسانی جسم مسلسل کام کرنے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اسے آرام کی بھی ضرورت ہے۔فطرت میں وقفے کی منظم ترتیب ہے۔سورج کو دیکھیں، ہر صبح طلوع ہوتاہے پھر غروب ہوتاہے،رات کے بعد سویرا ہوتا ہے۔ جو بھی انسان فطرت کے اس اصول پرجس قدر کاربند ہوگا،اسی قدر وہ خوش صحت مند اور کامیاب بھی ہوگا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ زندگی میں بس کام ، کام اور کام ہی کرتے رہنا چاہے۔دنیا ساری میں آٹھ گھنٹے کے کام میں وقفہ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی گوگل اپنے دفاتر میں قیلولہ کرنے کے لئے جگہ نیب پوڈز فراہم کرتی ہے جس کی بدولت ملازمین کو کام کے دوران قیلولہ میں سہولت ملتی ہے۔ سب سے بڑی سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی نے ہیڈکوارٹر میں کثیرتعداد میں قیلولہ گاہیں( نیب روم بنوائی ہیں جہاں ملازمین مختصر نیند لیتے ہیں۔اسی طرح جاپانی کمپنیوں میں قیلولہ کے لیے باقاعدگی سے وقفہ دیا جاتا ہے۔سپین میں ایک طویل عرصے سے ”سیسٹا“ کا تصور موجود ہے۔وہاں دوپہر میں کاروبار کچھ گھنٹوں کے لیے بند کر دیاجاتاہے اور دن ڈھل جانے کے بعد لوگ واپس کام پھر سے آتے ہیں۔چین میں بھی ملازمین کام کے دوران ہی مختصر نیند لیتے ہیں اوراسے ”دوپہر کی جھپکی“ کہاجاتاہے۔اٹلی میں اسے ”ریپوسو“کانام دیا گیا۔اسی طرح میکسیکو، برازیل اورارجنٹائن سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں کام کے دوران نینپ لینے کا باقاعدہ رواج ہے؟کیوں کہ وہ اس چیزکے فوائد جانتے ہیں۔ وقفہ لینے سے انسان کاذہنی دبا? کافی حدتک کم ہوجاتا ہے۔وہ تازہ دم ہوکر بہتر کام کرنے لگتاہے تو اس کی تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، اس کا ذہن تیز ہوجاتاہے اور وہ بہترین انداز میں اپنے کاموں کو سرانجام دیتا ہے۔وقفہ لینے سے انسان ذہنی سکون حاصل کرلیتا ہے اور مسلسل کام کی وجہ سے اس کے اندر جو بے چینی اور بیزاری پیدا ہوچکی ہوتی ہے ،وہ ختم ہوجاتی ہے۔نیپ لینے سے انسان کی قوت ارتکاز بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ اپنے کام پر پوری توجہ دیتاہے جس سے کام کا معیار بہترین ہوجاتاہے جبکہ ہم نیپ لینے کے بجائے وقفہ ملنے پر کھانا کھانے پر زور دیتے ہیں جس سے جب کام پر دوبارہ واپس آتے ہیں تو اونگھ رہے ہوتے ہیں۔سرکاری دفاتر میں کرسی پر ہی” نیپ “ لے لیتے ہیں اور خراٹے مارتے ہیں ہم دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے تجربات کرنا شروع کرتے ہیں۔ یہ زندگی بہت ہی قیمتی ہے۔اسے صرف پیسے کمانے یااونچامقام پانے کی خاطر ضائع مت کریں۔اپنی صحت کا خیال بھی رکھا کریں۔عہدوں کے دوران پیسے اکھٹے کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر اس پیسے کو سنبھالنے پر لگ پڑتے ہیں جس سے صحت اور عزت خراب کر لیتے ہیں۔صحت کی کوئی فکر نہیں، اپنے بنک بیلنس کی فکر کرتے ہیں جبکہ اردگرد دیکھیں تو کتنی زیادہ نعمتیں بکھری پڑی ہیں،ان سے لطف اندوز ہوں اور زندگی کوحقیقی معنوں میں گزارنا شروع کریں۔زندگی کی خوب صورتی کے محقق رابن شرما اپنی کتاب میں کہتا ہے:”زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کرکے اوربڑی خوشیوں کاپیچھا کرکے خودکو مت مارو۔ہر دن کو بھرپور انداز میں گزارو۔ مادی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی روح کو مت فروخت کرو۔تمھارے بینک اکا?نٹ، پیسہ ، بنگلے اورگاڑیوں سے خوشیوں اور اطمینان بھری زندگی کا کوئی تعلق نہیں۔سب جانتے ہیں یہ دنیا بہت سے بے اطمینان کروڑ پتیوں سے بھری پڑی ہے۔لہذا کہا یہ جاتا ہے کہ زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اور دوسروں کے کام آیا کریں۔ فطرت کے قریب رہا کریں نیچر کو دیکھ کر انجوائے کریں۔اپنے اردگرد لوگوں کی غمی خوشی میں شامل ہوا کریں۔پیسے بنانے والے اپنے اندر کا ٹیلنٹ ضائع کر دیتے ہیں اور انجوائے نہیں کر پاتے۔ جتنا پیسوں کا خیا ل رکھتے ہیں کاش اتنا خیال اپنی صحت کا بھی رکھیں۔ قربان علی سالک یاد آگئے

تنگ دستی اگر نا ہو سالک
 تندرستی ہزار نعمت ہے

ای پیپر دی نیشن