نئے مالی سال کا میزانیہ‘ عوام دوست یا تاجر دوست؟

اتحادی جماعتوں کی حکومت کا دوسرا اور آخری بجٹ گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کر دیا گیا جس پر دونوں منتخب ایوانوں میں پیر 12 جون سے بحث کا آغاز ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کئے گئے 2023ء، 2024ءکے اس بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 460 ارب روپے ہے جس میں اگلے مالی سال کیلئے جی ڈی پی شرح نمو کا ہدف تین عشاریہ پانچ فیصد رکھا گیا ہے جبکہ ٹیکسوں کی مجموعی وصولیوں کا ہدف 9 ہزار دو سو ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکس شامل ہیں۔ یہ سات ہزار پانچ سو 83 ارب روپے کا خسارے کا بجٹ ہے جس میں سپر ٹیکس کی مد میں دو سلیبز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین‘ پنشنروں اور تاجر طبقات کو فوکس کرکے انکی تنخواہوں اور مراعات میں خاطرخواہ اضافہ کیا گیا ہے اور صنعتوں پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔ اسی بنیاد پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس بحٹ کو عوام دوست بجٹ قرار دیا اور کہا کہ اتحادی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔ 
بجٹ میں وفاقی نان ٹیکس محصولات کا حجم 2963 ارب روپے کا رکھا گیا ہے۔ پرائم منسٹر لون کیلئے دس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے انکی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کر دی گئی ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز پر ٹارگٹڈ سبسڈی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نان فائلرز کیلئے بنک سے رقم نکلوانے پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جبکہ کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ سے ڈالر میں ادائیگی کیلئے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد مقرر کی گئی ہے۔ مجوزہ بجٹ میں رئیل اسٹیٹ بزنس اور بلڈرز کیلئے ٹیکس میں رعایت دی گئی ہے‘ ایگرو انڈسٹری پر ٹیکس ختم کیا گیا ہے اور اسی طرح رائس سیڈز‘ پلانٹرزاور ڈرائز پر ڈیوٹی ختم کی گئی ہے۔ بجٹ میں زرعی قرضوں کیلئے 2250 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور پچاس ہزار زرعی ٹیوب ویلز شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کے بقول بیوا?ں کا دس لاکھ روپے تک کا قرضہ حکومت ادا کریگی۔ بجٹ میں قرضوں کے سود اور اصل زر کی ادائیگی کیلئے 7 ہزار 302 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو بجٹ کے مجموعی حجم کا نصف ہے۔ سبسڈی کیلئے ایک ہزار 74 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح بجٹ میں توانائی کیلئے چار ارب‘ ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کیلئے 263.6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں 48 ارب روپے آئندہ الیکشن کیلئے مختص کئے گئے ہیں جو اس امر کا ٹھوس عندیہ ہے کہ موجودہ اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے پر حکومت اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کی تیاریوں کا آغاز کر چکی ہے۔ نئے مالی سال کے مجوزہ بجٹ میں جو اہم اقدامات اٹھائے گئے اور اہم فیصلے کئے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ 
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ 
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پیش کردہ اس بجٹ میں گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اسی طرح ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور کم از کم اجرت 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 32 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح نجی صنعتوں کے ملازمین کی اولڈ ایج بینیفٹ سکیم کے تحت ادا کی جانیوالی پنشن میں بھی ڈیڑھ ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اب نجی شعبے کے موجودہ یا سابقہ ملازمین کو ماہوار دس ہزار روپے پنشن ملے گی۔ حکومت کی جانب سے سرکاری اور نجی سطح کے ملازمین اور پنشنروں کو روزافزوں مہنگائی میں ریلیف دینے کیلئے ہی انکی تنخواہوں اور پنشن میں معقول اضافہ کیا گیا ہے جس پر ملازمین اور پنشنروں کی تنظیموں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ 
دفاعی اور سول انتظامیہ کے بجٹ 
نئے مالی سال کے مجوزہ بجٹ میں ملکی دفاع کیلئے 18 کھرب‘ چار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو اس مد کے گزشتہ سال کے بجٹ سے 281 ارب روپے زیادہ ہیں۔ اس طرح بجٹ میں سب سے زیادہ رقم دفاعی اخراجات کیلئے ہی مختص ہوئی ہے جو ملکی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے تناظر میں دفاع وطن کے تقاضے نبھانے اور مسلح افواج کو جدید اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سے لیس کرنے کیلئے ضروری تھے۔ ملٹری ایکسپنڈیچر ڈیٹا بیس اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک سٹڈیز کے ملٹری بیلنس کے مطابق پاکستان دفاعی اخراجات کے معاملہ میں ملک کے دفاع پر خرچ کرنیوالے 40 دیگر ممالک میں 23ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ پاکستان سے کم دفاعی اخراجات کرنے والے ممالک میں سے عمان اپنے جی ڈی پی کا 12 فیصد‘ لبنان 10.5فیصد‘ سعودی عرب آٹھ فیصد‘ کویت 7.1 فیصد‘ الجیریا 6.7 فیصد‘ آذربائی جان چار فیصد‘ ترکیہ 2.77 فیصد‘ مراکش 5.3 فیصد‘ امریکہ 3.4 فیصد اور بھارت 3.1 فیصد اپنے دفاع کیلئے خرچ کرتا ہے۔ 
بجٹ میں سول انتظامیہ کے اخراجات کی مد میں 714 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 
ترقیاتی بجٹ 
نئے مالی سال کے مجوزہ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کیلئے ایک ہزار 105 ارب روپے مختص کئے گئے جو دفاعی اخراجات کے بعد سب سے زیادہ اخراجات ہیں۔ اس میں 950 ارب روپے پی ایس ڈی پی اور 200 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی مد میں رکھے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ بجٹ میں شعبہ ہائے تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے کیلئے 81 عشاریہ 9 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق منصوبوں کیلئے 4050 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں خصوصی علاقہ جات آزاد جموں و کشمیر‘ گلگت بلتستان کیلئے 117 ارب 90 کروڑ روپے کی مختص کردہ رقم بھی شامل ہے۔ اسی طرح ترقیاتی بجٹ میں خیبر پی کے میں ضم ہونیوالے اضلاع کیلئے 57 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔ 
ڈیمز اور بجلی منصوبوں کیلئے مختص رقوم
بجٹ میں مختلف ڈیمز اور شعبہ بجلی کی ترقی کیلئے مجموعی طور پر 205 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ان میں ڈیمز کیلئے 98 ارب روپے اور بجلی پراجیکٹس کیلئے 107 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔ ڈیمز کی مد میں مہمند ڈیم کیلئے 105 ارب‘ داسو ڈیم کیلئے 59 ارب‘ دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 20 ارب‘ نیلم جہلم ڈیم کیلئے 4 عشاریہ 80 ارب اور تربیلا ڈیم کی استعداد میں اضافے کیلئے 4۔45 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ جامشورو پاور پلانٹ کیلئے 12 ارب‘ تاپی پاور پلانٹ کیلئے 16 ارب‘ این ٹی ڈی سی گرڈ سٹیشن کی بہتری کیلئے پانچ ارب اور کوہالہ ماہانہ پلانٹس کیلئے چھ ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔ نئے ڈیمز کی تعمیر اور پہلے سے موجود ڈیمز کی استعداد بڑھانے کیلئے بجٹ میں خطیر رقوم مختص کرنا یقیناً حوصلہ افزاءپیش رفت ہے تاہم اس میں بھاشا اور مہمند ڈیم کیلئے سپریم کورٹ فنڈ میں جمع ہونیوالی رقوم کو بھی شمار کیا جانا چاہیے تھا تاکہ ان رقوم کے حوالے سے جاری پراپیگنڈے کا ازالہ ہو پاتا۔ 
بجٹ کے اہم نکات
وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں جو انہیں پہلی بار اپوزیشن کے شور شرابے اور مزاحمت کے بغیر سکون اور اطمینان کے ساتھ منتخب ایوان میں پڑھنے کا موقع ملا‘ بجٹ کو عوام دوست ثابت کرنے کیلئے جن اہم نکات کو فوکس کیا گیا‘ ان میں رائس مل کی مشینری اور مشین کے آلات کیلئے خام مال اِن پٹ پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ‘ آئی ٹی آلات کی ڈیوٹی سے مستثنیٰ درآمد کی اجازت‘ غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے استعمال شدہ کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کیلئے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ‘ اسی طرح فلیٹ پینلز‘ مانیٹرز اور پروجیکٹرز کے پارٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ اور کمرشل امپورٹرز کیلئے اشیاءکی درآمد پر وِدہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد اضافہ کی تجاویز شامل ہیں جبکہ صحافیوں اور فنکاروں کیلئے بجٹ میں ہیلتھ انشورنس سکیم متعارف کرائی گئی ہے اور اس مد میں ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس تناظر میں بادی النظر میں بجٹ کا چہرہ عوام دوست ہی نظر آتا ہے تاہم بجٹ میں دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر ریونیو کی مجموعی وصولی کا ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے رکھا گیا ہے جس سے یقیناً عام آدمی ہی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی زد میں آئیگا۔ اس طرح بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ اور مختلف سبسڈیز کے ذریعے عام آدمی کو ملنے والے ریلیف کے ثمرات بھی ضائع ہونے کا اندیشہ لاحق رہے گا۔ 
بجٹ کے حوالے سے قابل ذکر امر یہ ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کی امید پر تیار کیا گیا ہے جس کیلئے گزشتہ روز بھی وزیراعظم شہبازشریف دعویٰ کررہے تھے کہ انکی ایم ڈی آئی ایم ایف سے بات ہو گئی ہے۔ ہم نے تمام شرائط پوری کردی ہیں‘ اس لئے اب معاہدے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے ابھی تک قرض پروگرام کی بحالی کا کوئی ہلکا سا عندیہ بھی نہیں مل رہا۔ اگر آئی ایم ایف کی قسط وصول نہ ہوئی تو لازمی طور پر اسکے منفی اثرات ترقیاتی بجٹ پر مرتب ہونگے اور آنیوالی حکومت کیلئے ضمنی بجٹ لانا بھی مجبوری بن جائیگا جس کے تحت عوام مزید نئے ٹیکسوں اور مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ بجٹ میں قوم کو اقتصادی استحکام کی بنیاد پر سیاسی استحکام کی امید دلائی گئی ہے۔ اگر اقتصادی استحکام کا خواب ہی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو پھر سیاسی استحکام کی منزل کیسے حاصل ہو پائے گی۔ یہ مجوزہ بجٹ عوام دوست سے زیادہ تاجر دوست بجٹ محسوس ہو رہا ہے اور اسی بنیاد پر ملک بھر کی تاجر تنظیموں کی جانب سے اس بجٹ کو موجودہ مشکل حالات میں مناسب بجٹ قرار دیکر اس پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس مجوزہ بجٹ سے اکتوبر 2023ءمیں عام انتخابات کے انعقاد کی راہ ضرور ہموار ہوئی ہے جو خوش آئند امر ہے۔

ای پیپر دی نیشن