پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سیاسی پارٹیوں میں جاگیرداروں اور زمینداروں کا غلبہ سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندیوں کا موجب بنا ، 1906ءمیں تقسیم ہند سے پہلے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی جسے دو قومی نظریہ پر قائم کیا گیا تھا ، اسی دو قومی نظریہ پر قائم رہتے ہوئے قائد اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مارچ 1940 ءلاہورمیں منعقدہ ایک اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظورکی ، آزاد اسلامی ملک کے طور پر حاصل کیا گیا پاکستان قائدِ اعظم کی وفات اور خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پے در پے ہچکولے کھاتا رہا، پاکستان آج بھی ویسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
جنرل ایوب خان کا آمرانہ دور سیاہ ترین دور تھا جس میں ایبڈو ( EBDO)قانون کے تحت کئی سیاست دانوں کو نا اہل قرار دیا گیا جس میں اہم مسلم لیگی رہنما بھی شامل تھے ، آل پاکستان مسلم لیگ اس قانون کے وجود میں آتے ہی بکھر گئی ایوب خان نے مسلم لیگ کا ورکرز کنونشن بلا کر مسلم لیگ (کنونشن) بنا لی ، خواجہ ناظم الدین نے مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس بلا کر مسلم لیگ (کونسل) کی بنیاد رکھی ،جنرل یحییٰ کی آشیر واد سے خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ (قیوم) کے قیام کے بعدکنونشن مسلم لیگ کے فنڈ منجمند کر وادیئے ، جنرل ضیاءالحق کے دور میں ملک قاسم نے محمد حسین چٹھہ کی صدارت میں مسلم لیگ (چٹھہ) متعارف کروائی ، محمد حسین چٹھہ نے جب سیاست سے کنارہ کشی کی تو خواجہ خیرالدین نے مسلم لیگ چٹھہ کو مسلم لیگ (خواجہ خیرالدین )کی شکل میں ڈھال دیا۔ خواجہ خیرالدین کے بعد کنگ میکر ملک قاسم مسلم لیگ (ملک قاسم ) کے سربراہ بن گئے اور آمریت کے خلاف متحرک ہو گئے۔
ایسے حالات میں اعلانیہ کنگ پارٹی مسلم لیگ (فنگشنل ) کا وجود عمل میں آیا جس کے سربراہ پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ دوم تھے۔ مسلم لیگ ( ف ) پاکستان کی سیاست میں آج بھی پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ راشدی کی قیادت میں متحرک کردار اد اکر رہی ہے ، جوڑ توڑ کی صورت میں عوامی پارٹیوں سے جنم لیتی کنگ پارٹیاں سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل ہیں ،سیاست کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانےوالے سیاسی پنڈت اپنی قائدانہ صلاحیتیوں کے زعم میں پارٹیوں میں گروپ بندیاں بنا کر نظریاتی سیاست کو دفن کرنے اور معاشرے میں عدم بر داشت کو پروان چڑھانے کے مرتکب ہیں۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں ابھی تک رکیں نہیں ، جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر غیر آئینی طور پر قابض ہونے کے بعد 1985ءمیں غیر جماعتی انتخابات کرا کر ملک کی سیاست میں ایسی تفریق پیدا کی جس میں سیاسی احترام زمیں بوس ہو گیا ، عدم برداشت بڑھتی چلی گئی، اگرچہ اسمبلی کا وجود غیر جماعتی تھا لیکن پارلیمنٹ آزاد گروپ اور سرکاری گروپ میں تقسیم ہو گئی ، حسبِ روایت سرکاری گروپ پاکستان مسلم لیگ کے نام سے منظرِ عام پر آیا لیکن جلد ہی محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کے بعد مسلم لیگ سرکاری گروپ مسلم لیگ جونیجو گروپ کی شکل اختیار کر گیا۔مئی 1988 ءمیں جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجوکو نہایت غیر مہذب طریقے سے برطرف کیا تو مسلم لیگ ایک بار پھر دو حصوں مسلم لیگ جونیجو گروپ اور کنگ پارٹی مسلم لیگ فدا محمدگروپ میں تقسیم ہو گئی، یہی فدا محمد گروپ بعد میں مسلم لیگ نواز گروپ بن گیا، 12 ، اکتوبر 1999 ءمیں جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ میاں نواز شریف کے ملک سے باہر چلے جانے کے بعدمسلم لیگ سے مسلم لیگ قائدِ اعظم نکلی جسے ق لیگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آمریت کے سائے تلے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اکثریتی جماعت کے طور پر بر سرِ اقتدار ہوئی۔
قائدِ اعظم کی مسلم لیگ اب کہیں نظر نہیں آتی جب کہ سب اپنے اپنے گروپ کو قائداعظم کی اصل جماعت گردانتے ہیں ، عصرِ حاضر میں عوامی پارٹیوں سے جنم لیتی کنگ پارٹیاں اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ انہیں سرکاری آشیر واد ملی ہوئی ہے ، لہٰذا موقع پرست سیاست دانوں کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ انہیں سرکار سے آشیر واد ملے اور وہ اقتدار کے مزے لوٹیں۔ اسکے علاوہ ان کاعوامی فلاحی کاموں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔2018 ءکے انتخابات میں تصور کی گئی عوامی پارٹی پاکستان تحریک ِ انصاف بھی کنگ پارٹی ثابت ہوئی ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پارٹی کو ان انتخابات میں معمولی اکثریت بھی نہیں ملی تھی لیکن سرکار نے انہیں 110 عد د کی حقیقی نشستوں کے ہوتے ہوئے مسندِ اقتدار پر بٹھایا ، اور جب سرکار نے اپنی آشیر باد والا ہاتھ کھینچا تو یہ کنگ پارٹی ”دھڑام “ سے زمین بوس ہو گئی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان حقیقت میں اپنے آپ کو ”کنگ “تصور کرنے لگے اور انہوں نے اپنے ہر مخالف کو پابندِ سلاسل کیا ، اور شاہانہ طور طریقے اختیار کرتے ہوئے ملک کے قریبی دوست ممالک سے تعلقات کو ب±ری طرح مجروح کیا۔عہد رفتہ میں عمران خان کے محسن اور دستِ راست جہانگیر ترین نے اپنی سیاسی جماعت ” استحکام پاکستان پارٹی “ کے قیام کا با ضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”ملکی ترقی کےلئے استحکام ِ پاکستان پارٹی بنائی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ 9 مئی کے شرپسندوں کو انجام تک پہنچایا جائے ، کنگ پارٹیوں میں شامل ” پنچھی “ حکومت کسی کی بھی ہو اقتدار میں وہی نظر آتے ہیں، یہ پس پردہ قوتوں کی کرشمہ سازی ہے کہ ان پنچھیوں کو سیاست کی ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر بٹھا دیتے ہیں ، کنگ پارٹیوں میں چھپے آمرانہ ذہن کے مالک پاکستان کو اپنی اناءکی بھینٹ چڑھا رہے ہیں جس سے ملکی سا لمیت کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔
عوامی پارٹیوں سے جنم لیتی کنگ پارٹیاں
Jun 11, 2023