ترقی کے بنتے بگڑتے زینے

Jun 11, 2023

سلیمان کھوکھر-----چہرے

گوجرانوالہ کی صنعت وحرفت کے عروج وزوال کے باب کوبند کرنے سے قبل کچھ اورنامور صنعتوں اورصنعت کاروں کاذکر ہوجائے۔محلہ بختے والا کی سٹرک پر سیٹھ عبداللہ کاکارخانہ تھا۔ہم نے سیٹھ صاحب کونہیں دیکھا بس جب ادھر سے گذر ہوتا توایک وسیع وعریض قطعہ زمین نظر آتا۔ہمارے لڑکپن تک شائد یہاں PRODUCTIONبند ہوچکی تھی بس اس کے ایک کونے میں برف خانہ البتہ موجود تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریز فوجوں کو سامان کی سپلائی سے انہوں نے بہت دولت کمائی۔ شہر بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا کہ ان سے بڑھ کر کوئی رئیس نہیں۔مگر سیٹھ صاحب کے ایک صاحبزادے نے مینو فیکچرنگ اورپروڈکشن کی بجائے فلم انڈسٹری کوترجیح دی اورناکام ہوگئے۔ 
کارخانہ دیگر وجوہات اورعدم توجہی کاشکار ہوکر پلاٹوں اوردکانوں میں بٹ گیا۔سیٹھ عبداللہ ایک گم گشتہ نام بن کررہ گیا۔اس خاندان میں ایڈووکیٹ گل رخ ارشد کانام باقی رہ گیا ہے۔اسی سٹرک پر قریب ہی شہر کے ایک اور معروف صنعت کار عزیز ذوالفقار کی فیکٹری "کینن میٹل ورکس"تھی۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے کامیاب شمارہوتی تھی۔
عزیز ذوالفقارچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری گوجرانوالہ کے بانی تھے۔ بعد میں وہ " چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری فیڈریشن آف پاکستان "کے صدر بھی رہے۔اس فیکٹری کے علاوہ شہر کے ایک نواحی علاقے "کھیالی"میں بھی بجلی کے پنکھوں کے"پر"بنانے کے پلانٹ بھی لگائے۔شعرو ادب کے آدمی تھے۔عنائت اللہ کے ماہواررسالے "حکائت" میں ایک مدت تک مزاح لکھتے رہے۔شہر میں رفیق تارڑ (سابق صدر پاکستان )سے بہت گاڑھی چھنتی تھی۔لطیفہ گوئی دونوں کا یکساں مشغلہ تھا۔"ڈیسنٹ موٹرز"کے بغیر گوجرانوالہ کی انڈسٹری کاذکر ادھورا رہے گا۔
اس کے مالک مرحوم حاجی اسماعیل کھوکھر تحصیل وزیرآباد کے نواحی گاﺅں "مدن چک"سے گوجرانوالہ آئے اورگوندلانوالہ روڈ پر اس کی بنیاد رکھی۔ان کے چاروں بیٹے یوسف کھوکھر،حاجی یونس کھوکھر،یعقوب کھوکھر اورایوب کھوکھر میں سے اب کوئی زندہ باقی نہیں بچا۔دل کے دورے اس خاندان میں وباءکی صورت پھیلے۔حاجی یونس کھوکھر شروع دن سے ہی اپنے آبائی گھر نوشہرہ روڈ پر ہی مقیم رہے ،بڑے متواضع انسان تھے۔دوستیاں خوب نبھاتے تھے۔90ءکی دہائی میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کاانتخاب لڑا مگر چند سو ووٹوں سے ہارگئے۔مگر جب زندگی کی بازی ہارے تو ڈیسنٹ موٹرز کی سلطنت دھڑام سے گرگئی۔اب وہاں پروڈکشن نہیں ہوتی ،ہوتی بھی ہوتو بہت معمولی ہوگی۔فیکٹری کامحل وقوع"رئیل اسٹیٹ"کے بڑاموزوں ہے۔دیکھیں اب کس وقت یہاں پلاٹ بنیں گے۔ءلاہوری دروازہ کے اندر گوجرانوالہ کی اولین پنکھاساز فیکٹری"ممتاز فین"کے نام سے تھی اسکے مالک حافظ ممتاز کھوکھر صاحب تھے۔ گوجرانوالہ کے شہریوں کوسب سے پہلے برقی پنکھے کا تحفہ ممتاز فین نے ہی دیا۔
ہمارے گھر میں ان کا ایک پنکھاجو اباجی نے 1965کے لگ بھگ خریدا تھا آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ ایسے چل رہا ہے کہ مرمت کامحتاج ہی نہیں۔ممتازصاحب خود ہر مشینری پر جاکر کام دیکھتے۔کاریگروں کے ساتھ دن بھر خود بھی محنت کرتے۔کام کام اورکام پر یقین نے انہیں کامل بنادیا تھا۔عرصہ ہوا ان کے خاندان کے کسی فرد سے ملاقات نہیں ہوسکی۔فیکٹری بھی "گذرا ہوازمانہ آتا نہیں دوبارہ"کا گیت الاپ رہی ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے موبائل فون مارکیٹ کےلئے اچھی جگہ ہے۔کسی وقت بن جائیں گی یہاں بھی دکانیں۔ اب گوجرانوالہ شہر میں چھوٹی یابڑی ،صرف وہ صنعتیں ترقی کررہی ہیں جن کاچوری چکاری اوراستحصال پر کامل ایمان ہے۔شہرکے غیر معروف علاقے ہوں یا جی۔ٹی روڈ، گیس چوری اپنی انتہا کوپہنچی ہوئی ہے۔"منتھلی"طے شدہ ہے اورقومی خزانہ لٹ رہا ہے۔لوٹنے والوں میں عملے کے علاوہ چند مخصوص دلالوں کابھی ایک ٹولہ موجود ہے۔ مثلا جی ٹی روڈ پرایک بہت بڑی فیکٹری ہے ،کئی ایکڑوں میں پھیلی ہوئی ،کسی کومعلوم نہیں کہ یہاں کیاچیز بنتی ہے مگردیکھتے ہی دیکھتے گوجرانوالہ ڈویثرن کے ایک ہمسایہ ضلع سے آئے ہوئے ان لوگوں نے کروڑوں روپے سے بھی آگے کی جست بھری اورارب پتی ہوگئے ،محض گیس چوری کرکے۔گوجرانوالہ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک سابق صدر اس فیکٹری اور محکمہ سوئی گیس کےلئے"درمیان "کادھندہ کرتے ہیں۔زیادہ دلچسپی سے اس کے احوال کوجانا تومعلوم پڑا کہ یہ سابق صدر صاحب شہر کی بیشتر فیکٹریوں کو یہی "خدمات" فراہم کرتے ہیں۔
ایک فیکٹری کے مالک کی تو اس وقت شہر میں دھوم مچ گئی جب اس نے بڑے "اخلاق"سے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی سے 80لاکھ کے قریب توانائی کے زمرے، میں وصول ہونے والا بل سرے سے ہی معاف کروالیا۔ اسلام میں تجارت کے اصول اس لئے طے ہوگئے کہ تب تجارت تھی ،صنعت کاری نہیں تھی۔مگر کیا تجارت کے اصول مینو فیکچرنگ کے شعبے پر عائد نہیں ہوتے؟۔صنعت کاری جوخاندانی اورشریف لوگوں کا پیشہ تھا ،جس نے ملکی ترقی کوبام عروج بخشا جب بجلی اورگیس چوروں کے ہاتھ آئی تو اس شعبے سے برکت اٹھ گئی۔اب صنعت کارکھرب پتی اورقومی معیشت مفلس ہوگئی (ختم شد)

مزیدخبریں