شاخِ زیتون مرجھا رہی ہے

مسلم ا±مہ کی قومی غیرت و حمیت تو یہ تھی کہ ایک عیسائی لڑکی کی عصمت دری کا بدلہ لینے کیلئے موسی بن نصیر طارق بن زیاد کے ساتھ مل کر وقت کےطاقتور اور جابر حکمران راڈرک سے ٹکرانے چلے گئے۔محمد بن قاسم نے صرف سترہ سال کی عمر میں ایک عرب تاجر کی بیٹی کو بحری قذاقوں سے چھڑوا لیا اور ہماری قومی غیرت و حمیت کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ بیس سال پہلے اسی مسلم ا±مہ کی سب سے زیادہ لاچار ، بے بس ،مجبورایک عورت ایک ماں ایک بیٹی کو ا±سکے اپنے رکھوالوں محافظوں نے اغیار کے ہاتھوں بیچ ڈالا ،یہ کہانی ہے اس عہد کی دکھیاری ماں اورمظلوم بیٹی کی جس کا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔ عافیہ کراچی میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی کراچی میں حاصل کی اسکے بعد وہ بوسٹن ٹیکساس میں جامعہ ٹیکساس میں زیر تعلیم رہیں اور پھر امریکہ کی وہ یونیورسٹی جس میں داخلہ لینا ذہین ترین طلبا ءکا خواب ہوا کرتا ہے عافیہ نے اسی ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور نیورو سائنسدان بن گئیں۔پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد وہ پاکستان واپس لوٹ آئیں۔یاد رہے عافیہ حافظ ِ قرآن ہونے کےساتھ ساتھ دینی علوم پر بھی دسترس رکھتی تھیں۔
پاکستان واپس آئیں تو 2003 میں نائن الیون واقعے کے بعد کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے دہشتگردی کے جرم میں ان کو انکے تین بچوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ عافیہ صدیقی افغانستان کی جیل میں برس ہا برس اذیت سہتی رہی روتی رہی مدد کیلئے پکارتی رہی مگر کوئی ا±س کا پرسان ِ حال نا ہوا۔ پھر عافیہ صدیقی کو افغانستان کی جیل سے ا±ٹھا کر امریکہ لے جایا گیا 19 جنوری 2010 کو نیویارک میں مقدمے کی کاروائی کا آغاز ہوا عافیہ پر الزام لگایا گیا کہ اس نے امریکی فوجیوں پر گن تانی تھی جس گن پر عافیہ کے فنگر پرنٹس تک نہ ملے اس پر وہ فردِ جرم عائد کر دی گئی جس کا امریکیوں کے پاس ایک ثبوت بھی موجود نہیں اور عدالت نے عافیہ کو 86 برس کی قید کی سزا سنا دی۔ ا±سی امریکہ نے ایک بے بس عورت ایک ممتا کی ماری ہوئی ماں کو 86 برس کی قید سنائی جسکے ہاں کتے اور بلیوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جس کو انسانی حقوق کی سب سے مستحکم آواز سمجھا جاتا ہے۔ جس سٹیٹ میں سب سے زیادہ فیمنیسٹ تحریکیں کام کر رہی ہوں وہاں عافیہ جیسی ایک عورت کو گزشتہ 13 برس سے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ کی فیڈرل میڈیکل سنٹر کارس ویل جیل میں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا ہو اور حکومتی ایوانوں میں ا± س کیلئے آواز بلند کرنے والا ا±س کو انصاف دلانے والا کوئی نہ ہو۔ کہانی صرف یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ عافیہ صدیقی کی اس پر اسرار قید کی ساری کہانی جاننے کیلئے سیالکوٹ سے داو¿د لاءایسوسی ایٹس کے بیرسٹر داو¿د غزنوی جو کہ بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں خود امریکہ گئے اور عافیہ صدیقی کیس کی ساری دستاویزات کا مطالعہ کیا اور اس کو اپنی کتاب Afia unheard : uncovering the personal and legal mysteries surrounding FBI most wanted women" "مقدمہ جو سنا نہیں گیا عافیہ صدیقی " میں لکھا۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بیرسٹر داو¿د نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ اس میں درج تمام معلومات امریکی عدالت میں چلنے والے مقدمہ کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکن عدالت سے جو عافیہ کیس کے حوالے سے دستاویزات مجھے ملیں ا±ن میں عافیہ کا بیان بھی لکھا ہواتھا "وہ کہتی ہیں میں نے کوئی قتل نہیں کیا نا ہی کسی دہشت گردانہ سرگرمیوں ملوث رہی بلکہ میں چاہتی ہوں کہ میرے نام پر اس دنیا میں کہیں کوئی دہشت گردی نہیں ہونی چاہئے۔ داو¿د لکھتے ہیں میں عافیہ کا بیان پڑھ کر بہت حیران ہوا کیونکہ امریکن عدالت میں جتنے بھی دہشت گردوں کے کیس ہیں سب نے قبول کیا ہوا ہے کہ وہ دہشت گر د ہیں اور اپنے کیے پر پشیمان بھی ہیں جبکہ عافیہ واحد ہیں جنہوں نے کہا ہے وہ امن پسند مسلمان ہیں اور دنیا میں صرف امن چاہتی ہیں۔پاکستانی حکومت چاہتی ہی نہیں کہ عافیہ رہا ہو۔ حکمرانوں نے آج تک ا±س کی رہائی کی کوشش ہی نہیں کی جبکہ ا±سکی بے گناہی ثابت ہو چکی ہے۔" اس کتاب کے سر ورق پر نوم چومسکی کا تبصرہ بھی درج ہے وہ لکھتے ہیں کہ" عافیہ کیس کے مقدمے کا فیصلہ انصاف کا بہیمانہ قتل کا ہے " نوم چومسکی جو کہ عافیہ صدیقی کے استاد تھے کہتے تھے کہ عافیہ اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ ہے۔ یہ جہاں بھی جائے گی تبدیلی لائے گی۔ نوم چومسکی ایک فلسفی ، مورخ ، نقاد ، سیاسی مصنف ،لیکچرار ہیں وہ ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ جدید لسانیات کے بانی بھی ہیں جن کو امریکہ کا ضمیر کہا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ دہشتگردی کےخلاف جو جنگ امریکہ نے شروع کی تھی عافیہ اس کا شکار ہوئی۔ عافیہ کا کیس ایسے ہی ہے جیسے فوجی کارروائیوں میں عام شہریوں کا نقصان ہوتا ہے۔آسٹریلین صحافی سی جے ویر لمین نے عافیہ صدیقی کیس کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد ا±س کو معصوم قرار دیتے ہوئے عافیہ کی رہائی کا مطالبہ امریکہ کے سامنے رکھا مگر بے سود۔وکٹوریہ بریٹن جو کہ مشہور برطانوی صحافی اور مصنفہ ہیں وہ معروف اخبار گارڈین کی ایڈیٹر بھی رہ چکی ہیں۔ گوانتا ناموبے اور غیر قانونی گرفتار قیدیوں کی رہائی وکٹوریہ کا خاص موضوع ہے ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنے سامعین کو بتایا کہ عافیہ کے کیس میں دو طاقتور ممالک امریکہ اور پاکستان مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں اور مسلسل پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور عافیہ کے حوالے سے مسلسل کردار کشی کر رہے ہیں۔ عافیہ ایک بے گناہ عورت ہے جسے ا±سکے بچوں سے بھی دور کر دیا گیا۔بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی دنیا بھر سے بڑے بڑے قانون دانوں نے صحافیوں نے عافیہ کے کیس کو سٹڈی کیا اور عافیہ کو بے گناہ اور معصوم ڈکلیئر کرتے رہے مگر امریکی انصاف کا نظام صمً بکمً کا عملی نمونہ پیش کر تا رہا۔اور آج بیس سال گزر جانے کے بعد 86 سال کی پرتشدد سزا کاٹتی ہوئی ایک اعلی تعلیم یافتہ دکھی مظلوم بہن اپنی لاچار مجبور بہن سے ملی۔ وہ ملاقات تھی یا پھر ذہنی ا ذیت میں مبتلا کر دینے والے چند گھنٹے ، جس میں بیس برس کی جدائی میں دونوں بہنیں ایک دوسرے کو گلے نہ لگا سکیں۔زنجیروں میں جکڑی ہوئی،نیم پاگل ڈاکٹر عافیہ جو موٹے شیشے کے دوسرے پار بیٹھی اپنی بہن سے اپنی ماں ( جو اب حیات نہیں ) اور بچوں کا پوچھتی رہی اور التجائیں کرتی رہی کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔ڈاکٹر عافیہ کو ا±س جہنم سے اب بھی نکالا جا سکتا ہے اگر حکومت پاکستان اس کیلئے سنجیدگی سے کو ششیں شروع کر دے۔ اگر انسانی حقوق کے علمبردار امریکی ڈاکٹر عافیہ کو انسانی ہمدردی کی بنا پر رہا کر دیں تو عافیہ کو ا±س جہنم سے ہمیشہ کیلئے نجات مل سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن