ذوالحج کا پیغام عالی شان

Jun 11, 2024

ڈاکٹر پیر ظہیر عباس

تبلیغ …ڈاکٹر علامہ ڈاکٹر ظہیر عباس
drzaheerabbas1984@gmail.com

عشرہ ذوالحج محبت' رواداری' ایثار اور اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جس دل افروز منظر میں اللہ کریم کے خلیل ( بہت زیادہ پیاری ہستی) حضرت ابراہیم جان سے عزیز تر اولاد قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ پھر آسمان نے وہ ساعتیں بھی دیکھیں جب رسی ' چھری ' صاحب زادہ ایک طرف اور دوسری جانب اللہ کی رضا، خوشنودی الٰہی اور خالق کائنات کی مرضی ومنشائ…!! فرشتے حیران ،پریشان اور انگشت بدنداں کہ کیا ہونے والا ہے؟ پھر وہی ہوا جو اللہ پاک چاہتے تھے '' اے ابراہیمی تو نے خواب سچ کر دکھایا ہے اب اس مینڈھے کی قربانی کرو ''بقول بزمی نصیر
زور سے پھینکی چھری اوپر خلیل اللہ نے
لاکے دنبہ رکھ دیا جنت سے جبرائیل نے
دنیا پھر سے اہل عقیدت اور اہل عشق سرزمین حجاج مقدس پہنچ رہے ہیں۔ اس مقدس گھر کی زیارت اور طواف کرنے جس کی تعمیر دو عدیم المثال نبیوں کے حصہ میں آئی۔ آپ اگر غورکریں تو پورے کا پورا حج اور اسکے مناسک حضرت ابراہیم کے گھرانے کی محبت اور عقیدت سے منسلک ہیں۔ کعبہ اللہ کی زیارت وطواف ،صفاءومروا کے درمیان سعی، شیطان کو کنکریاں مارنا اور قربانی سمیت بے شمار عوامل خلیل اللہ کی اپنے رب سے حد سے زیادہ محبت اور محبوبیت کااعلان کررہے ہیں۔ نبی محتشم کے جد امجد حضرت ابراہیمی کا ہر ہر عمل صبح قیامت تک یہ شہادت دیتا رہے گا کہ زندگی اللہ کی رضا کے بغیر کچھ نہیں!! آپ خالق کائنات سے عشق کریں پر دیکھیں عنایات ،انعا مات اور اعزازات کس طرح آپ پر نثار ہوتے ہیں۔ یاد ہے آتش نمرود کا جان لیوا امتحان، یہ جاں گسل آزمائش بھی حضرت ابراہیم کے پائیہ استقلال کو متزلزل نہ کرسکی۔ حضرت اقبال کو کہنا پڑا کہ آج تک عقل اس سوال کا جواب نہ دے سکی کہ آگ جس کا مشن جان ومال کو بھسم کرنا تھا اس نے اپنا کام کیوں نہیں کیا؟
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا ئے لب بام ابھی
اللہ پاک ہم سب کو سنت ابراہیمی پر عمل کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ یہ بھی یاد رکھیں سنت خلیل صرف جانوروں کو قربان کرنا نہیں، اصل سنت اپنی خواہشوں اور آرزوں کو اللہ اور اس کے عظیم رسول کے لیے قربان کرنا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی اور خواہشوں کوپیغمر اسلام کے تابع کرلیں گے تب جاکرزندگی اصل مقصد سے جڑے گی۔دعا کریں اللہ پاک غزہ کے باہمت مسلمانوں کو آزادی نصیب کرے۔ مسلمان حکمرانوں کو اس اتحاد اور اس کی برکت سے نوازے جس کے بل پروہ باطل کو ظلم وانصافی کا جواب ہی نہیں ان کی گردن بھی توڑ سکیں، درس قربانی یہی ہے اور پیغام اقبال بھی!! 
اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر اک پیرو جواں بے تاب ہو جائے
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "پس نماز اداکریں اپنے رب کیلئے اور قربانی کریں اس کیلئے"ام المو¿منین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر? نے فرمایا کہ انسان نے قربانی والے دن اللہ تعالیٰ کو کوئی پسندیدہ عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ ہواور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں مقبول ہوجاتی ہے اور اس لئے تم اپنے دل کو خوش کرلو۔حضرت زید بن ارقم نے آقائے کل عالم سے استفسار فرمایا کہ قربانی کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے،صحابہ کرام نے استفسار کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیاہے تو آپ نے فرمایا کہ ہربال کے بدلہ میں نیکی ہے،استفسار کیا گیا کہ اون کے بدلہ میں کیا ہے؟آپنے فرمایا اون کے ہر ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے۔آپ نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی کی ہے اور حجة الوداع کے موقع پر 63 اونٹ اپنے دست اقدس اور باقی اونٹ حضرت علی نے ذبح فرمائے۔رحمت عالم نے فرمایا ہے کہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا انسان ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ قربانی ہر اس عاقل ، بالغ ، مقیم، مسلمان، مرد اور عورت پر واجب ہے جو عید الاضحٰی کے ایام میں نصاب کا مالک ہے، (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا (87.4875گرام ) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125گرام ) یا اس کی قیمت کے برابر رقم اس کی ملکیت میں موجود ہو ) یا اس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا سامان ہے۔10 ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد سے 12 ذوالحجہ غروب آفتاب سے قبل کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے جبکہ دن کے اوقات میں قربانی کا جانور ذبح کرنا افضل ہے۔بکری،گائے،بیل،اونٹ ،بھینس اور دنبہ کی قربانی کرسکتے ہیں۔افضل قربانی اونٹ دنبہ کی قربانی ہے۔قربانی کا جانور ہر طرح کے ظاہری عیب،بیمار،نہایت کمزور،مفلوج پاو¿ں،کانا،نابینا،کان و سینگ کاٹا جس میں تہائی حصہ کے بقدر عیب ہو تو اس جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔قربانی کے جانور کو تیز چھری سے ذبح کیا جائے اور جانوروں کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح کیا جائے:قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے ایک حصہ خود کیلئے،ایک حصہ رشتہ داروں کیلئے اور ایک حصہ غربا کیلئیالبتہ سارا گوشت خود گھر میں استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔تاہم بڑے جانور جس میں 7 افراد شریک ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کرنا چاہیے۔قربانی کے جانور کے حصص میں عقیقہ اور کسی فوت شدہ انسان کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔تاہم کسی حیات انسان کی طرف سے قربانی کرتے وقت اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔

مزیدخبریں