گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
اس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے کردار اور اس کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح ہر ملک میں ہر جگہ سوشل میڈیا کی گیم چند ٹی وی ،پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے مالکان کے ہاتھ میں تھی، آج وہ نکل کر ہر اس انسان کے پاس پہنچ چکی ہے جس کے پاس اپنا سمارٹ موبائل موجود ہے۔ اب جس کو تھوڑا سا بھی سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کرنے کا شعور اور فہم ہے وہ شخص اپنی ذات میں ایک صحافی ہے، دانشور ہے ،سیاست دان ہے بلکہ ملٹی پل ماہر علوم بھی ہے۔ اس کے پاس انفارمیشن ہے۔ یعنی اگر وہ گوگل اوپن کرے تو اس کی لائبریری میں اربوں کتابیں، سائنس ،ہسٹری، جغرافیہ، انجینئرنگ ،ڈاکٹری،کوکنگ پر ہر طرح کی کتابیں موجود ہوتی ہیں وہ جو مرضی چاہیے وہ گوگل سے نکال پر پڑھ سکتا ہے۔ اس میں کمی بیشی کر کے اپلوڈ کرنے کے بعد اپنا نقطہ نظر پوری دنیا پر واضح کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس میں ہر شخص کی شناخت شخصیت اور اس کے علم و کردار پر اپروچ ہے۔اب کتابیں بھی ڈیجیٹل آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس لیے کہ دنیا کے پاس ٹائم نہیں ہے۔ جب ٹائم ملا وہ کتاب گوگل پر کھولی اس کی آڈیو سنی اور کتاب پڑھ لی، اڈیو کی سپیڈ آپ اپنی مرضی کے مطابق کم اور زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔یعنی پڑھنا اور سننا ایک ہی چیز کے مختلف طریقے ہیں۔ اس میں سوشل میڈیا کا کردار پاکستان میں بھی جو اہمیت اختیار کر رہا اس کا سلسلہ ہم 2008 کے انتخابات سے دیکھ رہے ہیں کہ جب سوشل میڈیا کافی حد تک ایکٹو ہو ا اور ایک عام آدمی تک موبائل فون کی رسائی ہوئی تو اس وقت پاکستان میں بھی اس کا بہت عمل رہا ہے۔خاص طور پر پاکستان کی یوتھ کو 2008میں جو لوگ16یا17سال کے تھے آج وہ لوگ مکمل طور پر اس کے گرویدہ ہو چکے ہیں۔اس کو استعمال کرنے میں ان کو کوئی مشکل نہیں وہ آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ "رجیم" بھی اس وقت سوشل میڈیا سے خائف ہے اور پاکستان کے وہ ادارے جنہوں نے اپنے مطلب کی سٹوریاں اور لوریاں سنا سنا کر پاکستانی عوام کو اپنی باتوں پر لگایا ہوا تھا آج عوام ان کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔کیونکہ ان کے ہر طرف علم کا ، انفارمیشن کا ایک سمندر موجزن ہے وہ کیسے ماورائے عقل و دانش باتوں پر یقین کریں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے کردار پر پابندی لگانے کے لیے پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان میں یوٹیوب، ٹویٹر،سوشل میڈیا کو بند کر دیا گیا لیکن یہ ایسا کرکے کہاں تک دنیا میں جی سکیں گے کیونکہ ہر چیز سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا،ٹویٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک سے لوگ انفارمیشن لے رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔پاکستان دنیا سے الگ اورتنہا کیسے رہ سکتا ہے، پاکستان کوئی ایران تو نہیں کہ جس کے پاس اتنے زیادہ وسائل ہیں کہ وہ امریکن پابندیوں کے باوجود بھی پچاس سال سے مزاحمت کر رہا ہے، سروائیو کر رہا ہے اور ترقی بھی کر رہا ہے۔
پاکستان کو اپنے حالات پر نظر ثانی کرنی ہو گی پاکستان میں اگلے دو ماہ تو کیا دو ہفتوں کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے پیسے نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو سوشل میڈیا کی اہمیت کو ماننا پڑے گا۔
بھارتی انتخابات میں جو ابھی چار جون کو مکمل ہوئے ، ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے پچھلے ڈیڑھ دو سال سے انڈیا کے دو مشہور صحافی ،ایک تو بہت مشہور اینکر رویش کمار ہیں جن کا انڈیا کے بڑے بڑے چینلوں پر نام گونجتا رہا ہے ،یہ بہت ہی سینئر صحافی ہیں جیسے پاکستان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ حامد میریا حسن نثار لیول کے صحافی ہیں۔اب انہوں نے سوشل میڈیا شروع کیا ہے، ان کے اس وقت دس ملین سے زیادہ فالورز ہیں اور دوسرے ہیں داروو راٹھی یہ ایک نوجوان لڑکا ہے ، ٹی شرٹ پہن کر یہ وی لاگ کرتا ہے۔ ملک میں او رملک سے باہر بھی یہ کام کرتا ہے۔ اس کے سوشل میڈیا کے اندر بہت زیادہ سبسکرائبر ہیں۔اس وقت اس کے پچیس سے اٹھائیس ملین سے زیادہ سبکسرائبرزاور فالورز ہیں۔اس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں الیکشن تک نریندر مودی کے کرتوت ،اس کی انتخابی پالیسیاں ان کا منشور اس کا پردہ چاک کروں گا وہ اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔خود انڈین گورنمنٹ نے اس کو تھریٹ کیا۔ اس پر مسلمان ہونے کے الزامات لگائے، آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے لیکن اس کے باوجود اس نے ہار نہیں مانی۔ وہ اپنا پیغام ڈیڑھ سو کروڑ انڈین عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہا،یہ انڈین گورنمنٹ کا دعویٰ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی دو تین دن پہلے مکمل ہونے والے انتخابات کے نتائج جب آئے تو نریندر مودی صاحب جو اپنے اتحادیوں کے ساتھ543سیٹوں میں سے 415سیٹیں آسانی سے جیتنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ان کی اپنی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی کو صرف 239سیٹیں جب کہ تمام اتحادیوں کو ساتھ مل کر ٹوٹل 293سیٹیں ملی ہیں جو پچھلے الیکشن تین سو تین سے بہت کم ہیں۔ثابت یہ ہوا کہ اس وقت موجودہ دور میں ہم سوشل میڈیا، اس کی افادیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اگر یہ ریسرچ پر مبنی کوئی جھوٹی بات ہو تو ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں مگر اس کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔موجودہ دور میں میں سمجھتا ہوں کہ جو بھارت میں گذشتہ دنوں رزلٹ آئے ان کا سارا کریڈٹ ان تین جرنلسٹوں کو جاتا ہے۔تیسرے جرنلسٹ ابھیسر شرما ہیں وہ بھی ان مین کرداروں میں شامل ہیں۔آپ تصور کریں کہ دوسری طرف مودی کے ساتھ جو کھڑے تھے ان میں امبانی ہیں،اڈانی،متل ٹاٹا برلا اور بڑی بڑی کمپنیاں جن کے اثاثے دنیا میں اس وقت نمبر ون ہیں۔ گوگل سمیت ہر چیز کے مالک ہیں۔ ان لوگوں نے اپنا پیسا خرچ کیا نریندر مودی کو جتانے کے لیے۔لیکن یہ تین مڈل کلاس جرنلسٹ سب کو بہا کر لے گئے۔اس لیے سوشل میڈیا کے کردار اور اس کی افادیت کو نظرانداز کرنا یا اس سے نظریں چرانا یہ اب ممکن نہیں رہا۔قارئین سوشل میڈیا کی اہمیت، افادیت موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔سوشل میڈیا میں نہ صرف انڈیا، پاکستان اور ایشیا بلکہ یورپ ،امریکہ ،نارتھ امریکہ اور میڈل ایسٹ پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اگلے چند مہینوں میں امریکہ میں الیکشن ہونے والے ہیں تو وہاں پر بھی ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن کمپین کا انحصار سوشل میڈیا سرگرمیوں پر ہی موقوف ہے ۔اسی طرح روس اور چین نے بھی مغربی ممالک کے مقابلے میں اپنا”ٹک ٹاک“ اور دوسرے پلیٹ فارم کھڑے کر دیئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا سکس جنریشن وار سے گزر رہی ہے ۔جس کا سارا دارومدار سوشل میڈیا کی کارکردگی پر ہے۔پاکستان کو بھی موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کے عوام پر پابندیاں لگانے کی بجائے پاکستانی عوام کو موقع دینا چاہیے۔ آپ ان کو اچھا کام کرکے دکھائیں وہ آپ کی تعریف کریں گے۔
اگر آپ نے کسی چیز کو کاو¿نٹر کرنا ہے، سنب کرنا ہے تو کسی لوجک کے ذریعے کریں۔سختی اور پابندیاں لگا کر جتنا کسی کو دبائیں گے وہ اتنا ہی زیادہ ابھر کر اوپر جائے گا۔ یہی قانون قدرت ہے ،یہی اصول ہے ،فطرت ہے ،اس سے آنکھیں چرانے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔