کھیل سے کھلواڑ 

کچھ لوگوں نے تو اسے سانحہ 6 جون قرار دے ڈالا یہ سب ناقابل یقین اور ناقابل قبول تھا ،کروڑوں دل ٹوٹ گئے پورا ملک افسردہ ہوگیا۔ 6 جون کو عالمی کپ کا ایک میچ تھا،مہمان ٹیم اس کھیل کی پرانی کھلاڑی تھی وسائل سے مالا مال بھی، اس ملک میں اس کھیل کا جنون تھا۔ کبھی یہ ٹیم بڑی کامیابی حاصل کرلیتی تو حکمران اس پر نوازشات کی بارش کر ڈالتے البتہ مہمان ٹیم اس کھیل میں بہت پیچھے تھی وہاں اس کھیل کا کوئی بڑا ڈھانچہ موجود نہ تھا اور نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی مناسب سرپرستی ،اور نتیجہ حسب توقع وہی رہا مہمان ٹیم نے میزبان ٹیم کو زیر کردیا۔ یہ اسلام آباد میں 6 جون کو ہوا فیفا ورلڈ کپ کوالیفائنگ راو¿نڈ کا میچ تھا جس میں میزبان پاکستان کو سعودی عرب کی ٹیم نے تین گول سے شکست دیدی، لیکن اس شکست کے باوجود پاکستان کے لیے یہ بڑا اہم میچ تھا۔ پہلی بار سعودی عرب جیسی ٹیم پاکستان آئی اور یہاں فیفا کا میچ کھیلا۔
 فٹ بال جو دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے، دنیا اس کھیل کی دیوانی ہے۔ کچھ ملکوں میں تو کہاوت ہے کہ دو وقت کی روٹی اور کھیلنے کو فٹ بال مل جائے تو اور کچھ نہیں چاہیے لیکن ہمارے یہاں تو اس اہم میچ کی کسی کو خبر تک نہ تھی۔ چلیں فٹ بال کو چھوڑیں ہاکی تو ہمارا قومی کھیل ہے اور اسی دن ہماری ٹیم نے پولینڈ میں ہونیوالے نیشنز کپ ہاکی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی لیکن یہ خبر بھی سب کی سماعتوں سے دور ہی رہی۔ خبر ایک ہی تھے کرکٹ ورلڈ کپ،پاکستان ٹیم فلاں جگہ پہنچ گئی کھلاڑیوں نے ہیٹس پہن کر بل فائٹنگ دیکھی کھلاڑیوں کے اعزاز میں عشائیے وغیرہ یہی خبریں یہی سرخیاں،اور پھر 6 تاریخ آگئی، سب پاکستانی کھلاڑیوں کو اشتہارات میں مسلسل دیکھتے رہے ،گھومتے پھرتے سیر سپاٹے کرتے، ویڈیو بھی خوب وائرل ہوئیں۔ اب کرکٹ ٹیم کو اس میدان میں اترنا پڑا جس کے لیے وہ گئے تھے۔
میزبان ٹیم امریکا جہاں کرکٹ کو بہت کم لوگ جانتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی ٹیم دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے پارٹ ٹائم کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جو امریکا میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن ان پارٹ ٹائم کھلاڑیوں نے پاکستان کے فل ٹائم لاکھوں روپے ماہانہ صرف کرکٹ کھیلنے کے لیے لینے وہی کھلاڑیوں کو وہ سبق سکھایا جو بھولا نہیں جائے گا لیکن یہ کہانی نئی نہیں، ہر ورلڈ کپ میں ہم ہی کوئی اپ سیٹ کرواتے چلے آرہے ہیں شاید ہی کوئی ایسی چھوٹی ٹیم بچی ہو جس سے ہم نہ ہارے ہوں،شاید یہ اپ سیٹ نہ ہوں کیونکہ کسی چھوٹی ٹیم سے ایک بار ہار جانا اپ سیٹ ہوسکتا ہے بار بار ہارنا تو اپ سیٹ نہ ہوا لیکن ہمیں امیدیں اتنی دلادی جاتی ہیں کہ ہمیں یہ شکست اپ سیٹ لگنے لگتی ہے تو ابھی اس سانحہ کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اگلا میچ بھارت سے تھا۔ پھر وہی کیا گیا ہم جیتیں گے ،تم جیتو یا ہارو وغیرہ اور پھر توقعات اور پھر ان توقعات کا خون۔
اب تو یہ معمول بن چکا ہے ٹورنامنٹ سے پہلے ہم اپنی ٹیم کو فیورٹ بنا کر پیش کرتے ہیں، ہارنے کے بعد اگلے میچ میں کم بیک کرنے کی یقین دہانی کرا دی جاتی ہے اور پھر ہمیں فلاں اس سے جیتیں وہ فلاں سے ہارے فلاں کے میچ میں بارش ہوجائے تو ہمارا چانس بن جاتا ہے جیسے حساب کتاب میں الجھا دیا جاتا ہے اور جب یہ سب بھی ختم ہوجاتا ہے تو ہمیں اگلے ٹورنامنٹ کی امیدیں لگادی جاتی ہیں یہ سب میڈیا نے تو کرنا ہی ہے، ریٹنگ مارکیٹنگ وغیرہ کے لیے، عوام کو تسلیوں پر لگانا تو بنتا ہے باقی دیکھا جائے۔ تو ہم ٹیم کو بھی ایسے ہی چلاتے ہیں جیسے مفاہمتی سیاست کے ساتھ چلائی جانے والی اتحادی حکومت اس کو بھی راضی رکھنا ہے دوستوں کو بھی ناراض نہیں کرنا،لیگز کے لیے قومی ٹیم کو چھوڑ جانے والوں کو مفاہمتی پالیسی کے تحت واپس لایا جاتا ہے۔ قریبی دوستوں کو بھی ساتھ رکھنا ضروری تھا تو نتیجہ تو یہی نکلتا ہے،ہماری کرکٹ کے مسائل بہت ہیں ڈھکے چھپے بھی نہیں لیکن کھیل سے کھلواڑ تو ہوتا چلا آرہا ہے، شاید یہ ایسے ہی چلتا رہے گا لیکن کم از کم باقی کھیلوں کو بھی تھوڑی سے توجہ دیدیں کرکٹ کے ایک کھلاڑی کو ملنے والے پیسے کے برابر ہی دوسرے پورے کھیل کو دیدیے جائیں تو یقین جانیں ہمیں ان کھیلوں کے میدانوں سے بڑی بڑی خوشخبر یاں مل سکتی ہیں کم از کم کرکٹ سے زیادہ۔ 
آخر میں ایک گزشتہ کالم سے متعلق معززقاری ڈاکٹر اسرار احمد کا ای میل پیغام :
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔محترم جناب، آپ کا آرٹیکل ’میڈیا: مسئلہ یا حل؟‘ پڑھا، یقینا آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔یقینا میڈیا کا رول جیسے پچھلے زمانے میں تھا آج اس سے بھی زیادہ اہم رول ہے۔ جس طرح آپ نے کہا چینلز وہی دکھانے لگے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے آج کے چینلز کا مقصد لوگوں اصل کہانی بتانا نہیں صرف چینل کی رینکنگ چاہیے حالانہ سوشل میڈیا کا کام اصل کہانی کو بیان کرنا اور بتانا ہے جس طرح آپ نے کہا میڈیا کو وہ دکھانا چاہیے جو دکھانا ضروری ہے میں آپ سے ایگری کرتا ہوں آج بھی بہت سارے جرنلسٹ ایسی باتیں بتارہے ہوتے ہیں جو عام بندے کو پتا نہیں ہوتا جوکہ بہت اچھی بات ہے سوشل میڈیا مسئلہ ہے لیکن کالی بھیڑوں کے لیے اور اس کا حل ان کالی بھیڑوں کا راستہ تنگ کرنا ہے میڈیا کے ذریعے۔۔۔

ای پیپر دی نیشن