جیتا ہوا میچ ہار جائیں تو۔۔۔؟

قومی ٹیم نے کروڑوں پاکستانیوں کا دل توڑ دیا ہے۔ قوم نومولود امریکہ کی ٹیم سے شرمناک شکست کا دکھ ابھی بھولی نہ تھی کہ روائیتی حریف بھارت سے جیتا ہوا میچ ہارنے پر ماحول افسردہ سا ہو گیا ہے۔ قومی ٹیم کے پاس بھارت سے جیتا ہوا میچ ہارنے کی کوئی دلیل نہیں۔ سیدھی سی بات ہے ٹیم میں جیت کی سپرٹ نظر نہیں آئی۔ ایک دو کھلاڑیوں کے سوا باقی سب کی باڈی لینگویج یہ بتا رہی تھی جیسے انھیں زبردستی میدان میں اتارا گیا اور وہ کسی انجانے خوف کا شکار ہیں۔ ابتدا کے دوتین اووروں اور آخر میں نسیم شاہ کی کوشش کے علاوہ پوری بیٹنگ پھس پھسی سی تھی خاص کر عماد، عثمان اور چاچا افتخار نے تو جیت کی کوشش ہی نہیں کی۔ صرف پچ پر کھڑے ہو کر وقت ضائع کیا حالانکہ 119 رنز پر بھارت جیسی ٹیم کو آوٹ کرنا باو¿لروں کا کمال تھا لیکن بیٹسمینوں نے باو¿لروں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ نسیم شاہ کا غیر متوقع ہار نے پر رونا بنتا تھا جس نے انڈیا کے ٹاپ کلاس تین کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ اس کی یقینی فتح ہار میں بدل جائے تو رونا تو آتا ہے۔ اسی طرح آج معاشرے کے بےشمار نسیم شاہ پاکستان کے حالات دیکھ کر روزانہ روتے ہیں لیکن بےحسی عروج پر ہے۔ فیصلہ کرنے والوں کو کیا پتہ حب الوطنوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے۔یوں لگتا ہے پورے پاکستان پر آسیب کا سایہ ہے ایسی نحوست چھائی ہوئی ہے کہ چھٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ لگتا ہے قومی ٹیم کو احساس نہیں کہ قوم کس قدر جذباتی لگاو¿ رکھتی ہے۔ کیا جانا تھا اگر تھوڑی سی ہمت کرکے جیتے ہوئے میچ کی جیت کو یقینی بنا لیتے تو کروڑوں پاکستانیوں کی عید ہو جاتی۔ قومی ٹیم اب بیٹھ کر سوشل میڈیا پر قوم کے جذبات کا جائزہ لے، جذبات کے اظہار کا وہ وہ رنگ نظر آئے گا کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ ویسے کوئی ہمت کرے تو جو کچھ اس وقت سوشل میڈیا پر تخلیق ہو رہا ہے اس پر بنا بنایا پورا دیوان مرتب کیا جا سکتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے اگلا میچ کھیلنے کے لیے کھسرے بھیجے جائیں تو کوئی کہتا ہے ٹیم کو اعظم خان کی آہ لے بیٹھی ہے۔ کسی نے لکھا ،شکست کے ہم ہی ذمہ دار نہیں پوری قوم ذمہ دار ہے جن کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔
 ٹیم مینجمنٹ، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ ہمیں اگلی ہار کا انتظار کرنا چاہیے۔ہر ہار کے بعد ہم اگلے میچ میں غلطیوں سے سبق سیکھیں گے۔ آپ کے سبق سیکھنے کی عمر گزر گئی، ٹیم واپس آئے تو ائیر پورٹ پر کانسٹیبل شاہد جٹ کو استقبال کے لیے بھیجا جائے اور ایک ماہ کمرے میں بند کر کے ٹیم کو چاہت فتح علی خان سنوایا جائے، انور مقصود صاحب نے تو بات ہی ختم کر دی۔ کہتے ہیں کرکٹ فضول کھیل ہے ہمارا قومی کھیل کرپشن ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کرپشن میں شکست نہیں دے سکتی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کے وسائل ٹیم پر خرچ کرکے کروڑوں کی ماہرین کو تنخواہیں دے کر اعلی تربیت کے عمل سے گزار کر بھی اگر ایسی ہی ٹیم تیار کرنی ہے تو اس سے بہتر ہے کوئی اور کام کر لیا جائے۔ کہتے ہیں جب کسی معاشرے پر زوال آتا ہے تو اس کا کوئی ایک شعبہ متاثر نہیں ہوتا جب معاشرہ اکھڑتا ہے تو اس کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے آج ہمیں جو سیاسی، معاشی،سماجی، اخلاقی وانتظامی بحرانوں کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ اصولوں کی پامالی ہے۔ مجھے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا وہاں میرے میزبان مجھے لال قلعہ لے گئے جہاں شام کو لائٹ اینڈ ساونڈ شو ہوتا ہے جس میں مغل ہسٹری بیان کی جاتی ہے اس میں بتایا گیا کہ لال قلعہ میں مینا بازار سجا ہوا تھا وہاں ایک شوخ چنچل حسینہ کا آنا ہوا بادشاہ سلامت کی اس پر نظر پڑ گئی بادشاہ کو وہ لڑکی بہت پسند آئی بادشاہ سلامت نے اسے اپنے حرم میں آنے کی دعوت دی لڑکی نے بادشاہ سلامت کی خوب دلجوئی کی بادشاہ سلامت بھی اسکے سحر میں مبتلا ہو گئے ایک دن لڑکی نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کے بادشاہ ہونے کا مجھے کیا فائدہ۔ بادشاہ نے کہا تم بتاوں کیا چاہتی ہو۔ لڑکی نے عرض کی حضور میرا بھائی کہیں ایڈجسٹ کرو۔ بادشاہ نے لڑکی سے پوچھا کہ تیرا بھائی کیا کرتا ہے لڑکی نے بتایا کہ وہ چاندنی چوک میں تربوز لگاتا ہے۔ بادشاہ تو بادشاہ تھا اس نے تربوز بیچنے والے کو ملتان کا گورنر لگا دیا۔ (اس وقت پنجاب کا دارالخلافہ ملتان تھا) جب آپ میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایسے لوگوں کو نوازیں گے جو اس مقام کے اہل نہیں تو پھر زوال ہی آئے گا۔ آج آپ بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو جابجا تربوز بیچنے والے ہی نظر آئیں گے۔ خدارا مسئلہ صرف قومی ٹیم کی ہار کا نہیں پورا معاشرہ ہی ابتری کا شکار ہے۔ ہمارا ہر شعبہ حالات کی ستم ظریفی کا رونا رو رہا ہے انصاف، میرٹ، اصولوں کی بالادستی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ آپ اوپر سے بہتری لانا شروع کریں خودبخود سب ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا۔ خدارا تجربات کرنا چھوڑیں خلوص نیت کے ساتھ بہتری کے لیے قدم اٹھائیں ورنہ ہر روز ایسی خفتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔

ای پیپر دی نیشن