حاشا و کلا، میں ضعیفی کو جرم تسلیم نہیں کرتا، نہ یہ سمجھتا ہوں کہ ضعیفی ہمارے کسی جرم کا نتیجہ ہے بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ بعض لوگ لمبی عمر پاتے ہیں اور بعض جوانی کے عالم میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں ۔ میں نے اپنے اس کالم کی سرخی ایک شاعر کے اس مصرعے سے اخذ کی ہے ، جس میں شاعر کہتا ہے کہ : ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
یہاں شاعر کا مطلب یہ ہے کہ جو قومیں کمزور ہوجائیں اور زوال کا شکار ہوجائیں ، وہ جلد مٹ جاتی ہیں اور ذلت و خواری کا سامنا کرتی ہیں مگر اس شعر کا اطلاق انسان کی ضعیف العمری پر نہیں کیا جاسکتا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے انسانیت ، موت کے دروازے پر ایک کتاب لکھی ، جس میں انھوں نے تاریخ کی نامور شخصیات کے وہ کلمات تحریر کیے، جو ان کے منہ سے دمِ آخر میں نکلے تھے ۔ بڑھاپے اور بیماری کا ذکر ہمارے لٹریچر میں خال خال ہی ملتا ہے ۔ مرزا غالب کا ایک مشہور مصرع ہے :
اب عناصر میں اعتدال کہاں
یہاں شاعر کی بجائے علم الابدال کا ایک ماہر بولتا محسوس ہوتا ہے ۔ مرزا غالب نے ایک خط میں اپنی بیگم کے اختلاجِ قلب کا ذکر کیا تھا ، مرزا غالب کا ایک قریبی رشتہ دار عین جوانی کے عالم میں اللہ کو پیارا ہوا تو غالب نے اس سے جدائی پر ایک تاریخی نظم لکھی تھی ۔ جس کا یہ شعر کافی مشہور ہوا کہ
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب کہ قیامت کا دن ہے کوئی اور
میں نے بچپن میں ہیلن کیلر کی آپ بیتی پڑھی، وہ بینائی سے مکمل طور پر محروم تھی ۔ اس نے اپنی کتاب میں حسرت سے لکھا کہ میری سہیلیاں سفید، سرخ ، نیلے ، پیلے اور دیگر رنگوں کی بات کرتی ہیں ، لیکن میں ہرگز نہیں جانتی کہ سفید رنگ کیسا ہے اور سرخ رنگ کیسا ؟ یا بنفشئی رنگ کیسا؟ برطانیہ میں ایک ڈاکٹر کا ہارٹ ٹرانس پلانٹ کا آپریشن کیا گیا ، اس نوعیت کا یہ پہلا آپریشن تھا جو کامیاب رہا ۔ اور مریض کئی برس تک زندگی کا لطف اٹھاتا رہا ۔ اس نے اپنے آپریشن کے بارے میں ایک کتاب تحریر کی ، جس میں اس نے لکھا کہ جب میں آپریشن تھیٹر کی طرف پیدل جارہا تھا تو مجھے اپنے پاﺅں کئی کئی من وزنی محسوس ہوئے ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ آپریشن ٹیبل پر لیٹ پاﺅں گا اور جب میں ہسپتال سے رخصت ہوں گا تو میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا ہوں گا ۔
مولانا مودودی اپنے بڑھاپے میں جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوگئے اور علاج کے لیے امریکا کے شہر بفلو میں پہنچے ۔ وہاں سے انھوں نے اپنی بیٹی کے نام ایک خط تحریر کیا ، جس میں لکھا تھا کہ ایک زمانے میں میں لکھنے پڑھنے کے کام میں تھک کر چور ہوجاتا تو میرا دماغ بدن میرے بدن کو پیغام بھیجتا کہ سوجاﺅ اور آرام کرو اور اب وہ وقت آیا ہے کہ کئی کئی راتیں جاگ کر کٹ جاتی ہیں ۔اب میرا بدن میرے دماغ کو پیغام دیتا ہے کہ بری طرح تھک گئے ہو اب سوجاﺅ، لیکن اب دماغ میرے بدن کی بات نہیں سنتا ،نہ مانتا ہے ۔ روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں میرے پیش رو ڈپٹی ایڈیٹر بشیر احمد ارشد ، بابا وقار انبالوی کو از راہِ تفنن چھیڑا اور کہا کہ تم مرتے کیوں نہیں ہو؟ بابا وقار انبالوی ادھیڑ عمری کے مرحلے میں تھے مگر انھوں نے پھرتی سے جواب دیا کہ میں تمھارا جنازہ پڑھ کر مرنا چاہتا ہوں ۔ چند ہفتوں کے بعد بشیر احمد ارشد تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔ ایڈووکیٹ عبدالوہاب صاحب نجومی بھی تھے ، علم الاعداد اور دست شناسی کے ماہر بھی ۔ میں نے ان کے بارے میں ایک کالم میں لکھا تھا کہ انھوں نے آئی جی پنجاب پولیس سردار محمد چودھری سے کہا کہ آپ سات روز تک زندہ رہ سکتے ہیں اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ مگر یہی عبدالوہاب ایک صبح گھر میں بے ہوش ہوکر گرگئے ، انھیں ہسپتال لے جایا گیا، مگر وہ جانبر نہ ہوسکے ۔ ایک شاعر نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے :
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افلاک کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
شیخ منظور الٰہی نام ور بیوروکریٹ تھے ، انھوں نے درِ د لکشا کے نام سے ایک کلاسیکل کتاب بھی لکھی ، جب وہ بالکل ضعیف العمری کا شکار ہوئے تو انھیں پنجاب کا چیف منسٹر لگادیا گیا ۔ وہ گھر سے آفس سے جانے کے لیے نکلے توٹریفک سارجنٹ نے سڑک خالی کروانے کے لیے ہوٹر بجانا شروع کردیا ۔ شیخ صاحب نے اپنے سیکرٹری کے ذریعے اس سارجنٹ کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ ہوٹر شوٹر مت بجاﺅ، اس سے میرا دل کمزور ہے اور تیزی سے دھڑکنے لگ جاتا ہے اور گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے ۔
کوئی 10،12برس قبل میں فزیو تھراپی کیلئے ایک ہسپتال جایا کرتا تھا ، ڈاکٹر محمد سرور مجھے آتے جاتے غور سے دیکھتے ، ایک روز میں سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ اچانک وہ میرے سامنے آگئے ، اور انھوں نے فقرہ کسا کہ بڑھاپے سے جان چھوٹ جائے تو مجھے بھی اس کا گُر بتانا ۔ بڑھاپا اور اس کا سد باب کے موضوع پر اردو ڈائجسٹ نے حکیم اقبال حسین کا ایک کتابچہ شائع کیا ، جس کی کتابت اس قدر باریک تھی کہ میں عالمِ جوانی میں بھی اسے نہیں پڑھ سکا ۔ اب تو آٹھ سال سے بینائی سے محروم ہوں ۔ تو میں بڑھاپے سے نجات کے گُر کیسے بتاسکتا ہوں ۔ پاکستان کے ساتھ جنم لینے والی نسل اب تیزی سے معدوم ہورہی ہے ۔ اس نسل کے خال خال چہرے دکھائی دیتے ہیں یا انکی آواز سنائی دیتی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ہم کئی دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں، تجزیہ کاروں، صحافیوں اور مصوروں سے محروم ہوگئے ہیں ۔ میں اگر محنت کرتا تو بچھڑنے والوں کی فہرست طویل ہوسکتی تھی، اور اگر میری یادداشت جواب دے چکی ہوتی تو یہ فہرست چھوٹی رہتی ۔ ہم سے جدا ہونیوالوں میںنذیرحق ، قدرت اللہ چودھری ،رحمت علی رازی، نذیر ناجی، ممتازشفیع ، رحیم اللہ یوسف زئی ،سعید سلیمی،عاشق چودھری، اسلم کمال ، عطاءالرحمن، رﺅف طاہر، ذوالقرنین، الیاس شاکر، ضیاءشاہد، جواد نظیر، جہانگیر بدر،قیوم اعتصامی ، بشریٰ رحمن، ڈاکٹر صفدر محمود، سلیم تابانی، حسنین جاوید، سعود ساحر، مختار حسن، اطہر مسعود، ایم طفیل، بھاطارق اسمٰعیل ، عباس اطہر، سید انورقدوائی، نصراللہ غلزئی،طارق عزیز،خرم جاہ مراد، ڈاکٹر صہیب مراد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن،جنرل حمید گل، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، عبدالغفار عزیز، مسرورکیفی، امجد اسلام امجد، طارق اسمٰعیل ساگر، قیوم نظامی، عبدالجبار شاکر، چودھری صفدر علی، سید خورشید گیلانی، پروین شاکر،طارق اسمٰعیل ساگر، فرخندہ لودھی ، حا فظ سلمان بٹ، وحید رضا بھٹی، اجمل ملک، افتخار مجاز، گلوکارہ ریشماں، شفیق مرزا، شہزاد احمد، محمدرفیق ڈوگر، خالد چودھری، ریاض الرحمن ساغر، وارث میر،شاہدرشید، ادیب جاودانی، علامہ احمد علی قصوری، ڈاکٹر اجمل نیازی، اصغر نیازی ،جواد نظیرودیگر شامل ہیں۔ یہ وہ ستارے ہیں جوکہکشاﺅں میں رہ کر روشنیاں بکھیرتے رہے مگر اب ہم ان سے محروم ہوگئے ہیں۔ میری بیماری کا کالم پڑھ کر ممتا ز کالم نویس ، مزاح نگار اور شاعر عطاءالحق قاسمی نے مجھے تسلی دینے کیلئے کہا کہ تمھاری عیادت کو کوئی نہیں آیا تو اچھا ہوا ۔ عیادت کرنیوالے کون سے بیماری کی تکلیف کم کردیتے ہیں بلکہ الٹا نیا وائرس لگادیتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے بارے میں ایک خوفناک خبر دی کہ میں تین بار ہسپتال داخل ہوچکا ہوں، میرے معدے سے 8بوتلوں کے برابر خون رس رس کر ضائع ہوچکا ہے ۔ مجھے بھی کوئی دوست یار پوچھنے نہیں آیا ۔ چند روز پہلے میں نے انھیں فون کرکے پوچھا کہ اب آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ عطا جی نے بوجھل لہجے میں جواب دیا : ہرگز نہیں، ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ شیخ سعدی فرماگئے ہیں:
خیر کن اے فلاں وا غنیمت شمار عمر
راں پیشتر کہ بانگ برآئد فلاں نہ ماند
اس کا مطلب یہ ہے کہ’اے فلاں شخص، اپنی عمر کو غنیمت جان اور کچھ نیکیاں کرلے، اس سے پہلے کہ آوازہ بلند ہو کہ فلاں شخص نہیں رہا۔‘
شروع شروع میں جب مجھ پراضمحلال طاری ہوا ، تو میں نے جنرل (ر)غلام مصطفی سے اپنی یہ کیفیت بیان کی ۔ وہ مجھ سے ماشاءاللہ عمر میں بڑے ہیں اور انھوں نے بہت اونچ نیچ دیکھی ہے ، وہ بولے کہ انسان کے ذہن کی سوچ بڑھاپا طاری کرتی ہے ، کوشش کریں کہ فکر و فاقہ ذہن کے قریب نہ پھٹکے۔