اٹھو ماٹی سے اٹھو....

مایہ ناز فلاسفر اور انسانی رویوں کے ماہر ولیم جیمز ایک بارلیکچر دے رہے تھے کہ اچانک ایک بزرگ خاتون اٹھیں اور گویا ہوئیں کہ جیمز تمہاری ساری باتیں غلط ہیں، اس پر ولیم جیمز نے متعجب ہوکر پوچھا کیسے؟ بزرگ خاتون نے کمال شفقت اور سادگی سے کہا جیسے ہماری دنیا کے بارے میں تمہارے خیالات.... تمہیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارا سیارہ ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ٹکا ہوا ہے۔ ولیم جیمز نے اشتیاق سے پوچھا اور وہ کچھوا؟ دوسرے کچھوے کی پیٹھ پر۔ جواب ملا!۔ ولیم جیمز نے مسکرا کر پوچھا اور دوسرا کچھوا؟ تیسرے کچھوے کی پیٹھ پر۔ پھر جواب ملا! ولیم جیمز نے مسکرا کر پوچھا اور تیسرا کچھوا؟ اس پر بزرگ خاتون نے بڑے راز دارانہ انداز میں کہا کہ یہ سب پوچھنا بے کار ہے کیونکہ کچھوو¿ں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے جس پر ایک اور اس کے بعد دوسرا ٹکا ہوا ہے۔ انسانی رویوں کی سائنس کے ماہر رابرٹ سیپولسکی نے اپنی نئی کتاب ”Determined“ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اصل واقعہ ہے یا محض کہانی، لیکن ہم بڑی دلچسپی سے نہ صرف اس کا ذکرکرتے ہیں بلکہ اسے بار بار اتنی ہی دلچسپی سے دہراتے بھی رہتے ہیں۔
غور کریں تو ہمارا معاشرہ بہت سے ایسے اعتقادات میں گھرا ہوا ہے جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور ہم اپنے خیالوں اور اعمالوں میں ان کے کرشمے سے ایک شام کئے رکھتے ہیں اور گھوم پھر کر دوبارہ کوچہ قاتل میں آ جاتے ہیں۔
 قیام پاکستان کے چند برس بعد ہی کچھ بزرگ ادیبوں نے یہ کام بخوبی سنبھال رکھا تھا اور بقول شاعر چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا کے مصداق قوم کو وہ سہانے خواب دکھائے کہ روز قیامتیں پڑنے کے باوجود دل سے احساسِ روزِ جزا نہیں گیا۔ یہ قابل احترام بزرگ اپنی ہر دوسری تحریر میں ہمیں باور کرایا کرتے تھے کہ پاکستان بہت عظیم ملک بنے گا، اتنا عظیم کہ یو این او بھی اس سے پوچھ کر چلا کرے گا وغیرہ وغیرہ اس طرح ان بزرگوں کے ”بزرگ“ جنگوں میں پاکستانی فوجدار بن کر بموں کے بم اپنے ہاتھوں سے کیچ کرکے ناکارہ بھی بناتے رہے۔ ملک کے دولخت ہونے تک تحریروں کی اس گرمءاظہار کا سلسلہ بڑے زور و شور سے جاری رہا پھر جب قوم نے دیکھا کہ اگلی جنگ میں کوئی بزرگ بم پکڑنے کیلئے نمودار ہوا نہ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑے، بس خواب سہانے ٹوٹ گئے تو یہ تحریروں کا سلسلہ کافی حد تک بند ہو گیا۔
ہم کچھ اسی طرح کی غلط فہمیوں کو حقائق سمجھتے ہیں۔ 80ءکی دہائی میں آشوب چشم کی بیماری پھوٹی تو ہمارے سادہ دل لوگوں نے تصور کر لیا کہ یہ ایٹمی تجربات کا ردعمل ہے۔ جس کو دیکھو آنکھیں لال کئے “ قوم کی خاطر قربانی دے رہا ہے“ پوچھا جاتا کہ کیا ہوا تو ارشاد ہوتا ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے اتنی قربانی تو بنتی ہے۔
 ہمارا قومی کھیل تو ”ہاکی مرحوم“ ہوا کرتا ہے لیکن عشق کرکٹ سے ہے۔ ایک بار پڑوسی ملک میں ورلڈ کپ ہو رہا تھا۔ ہماری کرکٹ ٹیم بڑی فارم میں تھی۔ پھر میزبان ٹیم سے غالباً سیمی فائنل میں مقابلہ ہوا۔ بدقسمتی سے ہم بڑی آسانی سے ہار گئے لیکن اپنے کئی قومی مہربانوں سے معلوم ہوا کہ اصل میں یہ ایک قربانی تھی جو کرکٹ ٹیم نے غیر ملکی امداد وغیرہ کے بدلے دی ہے۔ ”ہاں بھئی.... ہمیں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ امداد چاہئے یا ورلڈکپ.... پھر کیا کرتے وطن عزیز کو امداد کی اشد ضرورت تھی چنانچہ انتہائی زبردست کارکردگی دکھانے کے باوجود اس میچ میں خاموشی سے ہار گئے“.... ایک بار سینما ہال میں دیکھی ایک فلم کی روداد بھی یاد آ رہی ہے جس میں ہیرو ایک جرائم پیشہ شخص ہوتا ہے اور اس کا چھوٹا بھائی پولیس آفیسر.... ہیرو اپنے چھوٹے بھائی سے متعلق سب جانتا ہے مگر چھوٹا بھائی ہیرو کے ساتھ اپنے رشتہ سے اتنا ہی بے خبر جتنا عمومی طور پر ہم حقائق سے ہوتے ہیں۔ چنانچہ پولیس کے جتھے کے جتھے گرفتاری کیلئے جاتے ہیں مگر اکیلا ہیرو ناکامی ان کا مقدربنا دیتا ہے۔ اس پر اکیلا چھوٹا بھائی اپنی خدمات پیش کرتا ہے تو داد شجاعت دینے والا ہیرو ایک بے ضرر چوہے کی طرح گرفتار ہو جاتا ہے۔ بے خبر چھوٹا بھائی بڑا غیر شائستہ رویہ اختیار کرتا ہے مگر ہیرو مسکراتا ہوا یہ ستم خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔ ہمیں یاد ہے یہ سب سینما ہال میں بیٹھے ہیرو کے ایک بہت بڑے فین سے برداشت نہ ہوا اور اپنی سیٹ سے اٹھ کر ”اپنے قد سے بھی اک سروقامت بلند گالی دی اور کہا ”اگر وہ تمہارا بڑا بھائی نہ ہوتا تو آج تم اس دنیا میں نہ ہوتے“۔
معلوم نہیں سرابوں، خوابوں اور ضعیف الاعتقادیوں کے دھبے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے اور پھر کہیں جا کے بے داغ سبزے کی بہار نظر آئے گی۔ 
دین کے معاملات ہوں یا دنیاوی باتیں۔ من حیث القوم ہم نے ہوش کی بجائے جوش کو ہی ترجیح دی ہے اور یہ ترجیح ہماری قومی ترقی میں کئی علتوں اور آلائشوں کی طرح رکاوٹ رہی ہے۔ ہم نے اپنے بہت سے قومی معاملات میں حقائق تلاش کرنے کی اکثر کم ہی کوشش کی ہے اور نتیجہ میں کئی بار جگ ہنسائی کا باعث بنے ہیں۔ سرابوں، خوابوں اور ضعیف الاعتقادیوں کا ہی ثمر ہے کہ دنیا نے ہمیں سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے۔ بس رسمی رکھ رکھاو¿ نبھاتے جا رہے ہیں۔
راستے کٹھن، گزرگاہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں، اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریک راہوں میں مارے جانیوالے غم سے آزاد بڑی بے فکری سے ان راستوں پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں بند، ذہن کند ہوتے چلے جا رہے ہیں، ڈیپریشن اور نفسا نفسی بڑھ رہی ہے۔ ان اندھیری راہوں کے مسافر بن کر ہم انسان کم اور انتظار حسین کے ”آخری آدمی“ زیادہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ خواہشات سے لبریز چہرے انسانی تازگی کھو کر بن مانسوں کا روپ دھار رہے ہیں اور ہم ہیں کہ بے دھڑک چلتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ایک انگریزی فلم میں مشینی انسان ایک جیتے جاگتے کردار کی طرح ہاتھ بڑھا کر کہتا ہے کہ ”آو¿ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو“ اسی طرح ہم سب کو بھی حقائق کی طرف ہاتھ بڑھا کر چلنا ہوگا۔ غفلت کا نام موت ہے ایک ایسی ابدی نیند جس کی کوئی صبح نہیں ہوتی چراغوں کو بار بار بجھا کر دیکھنے سے بھی کہیں سے روشنی کی ایک لکیر تک نمودار نہیں ہوتی بلکہ گھور اندھیرے مقدر بن جاتے ہیں۔ نیند کے گہرے سائے پاٹ کر سچائی کی کڑی دھوپ کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپنے کپڑے اور خاک میں لتھڑے جسم جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہونا ہو گا۔ سائے کمزوری، وہم اور ضعیف الاعتقادی کی علامت ہیں جبکہ کڑی دھوپ سونے کوکندن بنانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
بقول فیض:
اٹھو ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لعل۔
(بیوٹی فل مائینڈز بک کلب کی تقریب میں پڑھا گیا)۔

ای پیپر دی نیشن