1976-77ء کا دور تھا۔ انتخابی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ پنجاب کے دیہات میں پیپلز پارٹی کی حمایت تقریباً برقرار لیکن شہروں میں مسلسل کم ہو رہی تھی اور یہ بات انتخابی جلسوں سے بھی پتہ چل رہی تھی۔ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد کم اور مخالف اتحاد پی این اے کے جلسوں میں ہجوم زیادہ ہوتا تھا۔ بعدازاں ، الیکشن میں دھاندلی کیخلاف تحریک چلی تو یہ توازن اور بگڑ گیا۔ سڑکوں پر پی این اے نظر آتا تھا ، پیپلز پارٹی کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔
موچی دروازے میں ، الیکشن مہم کے دوران پیپلز پارٹی نے جلسہ کیا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ مطلب شروع ہی سے موجود نہیں تھے، یعنی جب ہم پہنچے تو ڈاکٹر مبشر حسن خطاب فرما رہے تھے۔ موچی دروازہ آدھے سے زیادہ خالی تھا اور شرکائے جلسہ کاغذ میں مٹی ڈال کر اسے پڑیا کی شکل دے کر ایک دوسرے پر پھینک رہے تھے۔ یہ نئی بات تھی جو ان دنوں دیکھی گئی۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا کہ اصغر خاں امریکی ایجنٹ ہے اور میرے پاس اس کا ثبوت اور دلیل ہے۔ انہوں نے دلیل یہ پیش کی کہ آلو امریکہ کی ایجاد ہے (انہوں نے ایجاد کا لفظ استعمال کیا) اور اصغر خاں آلو ہے اس لئے امریکی ایجنٹ ہے۔ بھٹو صاحب نے اصغر خاں کو آلو کا خطاب دے رکھا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ فقرہ ازراہ مزاح ادا کیا تھا لیکن حاضرین نے سمجھا کہ وہ کوئی سنجیدہ دلیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ اس دلیل سے متاثر نہ ہوئے اور کوئی داد ملی نہ قہقہہ گونجا__ ڈاکٹر صاحب سنجیدہ دلیل دیتے تب بھی داد ملنے کا امکان کم تھا کہ حاضرین مٹی کی پڑیا ئیں ایک دوسرے پر پھینکنے میں مصروف تھے۔
پیپلز پارٹی کے جلسوں میں کم حاضری کی ایک وجہ اور بھی تھی، منجملہ بالا وجوہات کے علاوہ__ اور وہ یہ تھی کہ برصغیر کی روایت ہی یہی رہی ہے کہ لوگ اپوزیشن کے جلسوں میں زیادہ ، حکومتی جلسوں میں نسبتاً کم جاتے ہیں لیکن نسبتاً کم۔ مطلق کم نہیں جیسا کہ ہم نے کل پرسوں سوات میں پی ٹی آئی کے جلسے میں دیکھا۔ اس جلسے میں جو دیکھا، وہ ماجرائے عجیب تھا۔
_____
یہ جلسہ اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ یہ بیک وقت حکومتی پارٹی کا بھی تھا اور اپوزیشن کا بھی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی حکمران جماعت ہے اس لئے یہ حکومتی جلسہ تھا لیکن ملکی سطح پر یہ اپوزیشن کی جماعت ہے اس لئے اپوزیشن کا جلسہ تھا۔
اور چونکہ یہ جلسہ قائد انقلاب کی رہائی کیلئے جاری مہم کا حصہ تھا، اس لئے اسے خالصتاً اپوزیشن کا جلسہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ جلسہ سوات میں ہوا جو پی ٹی آئی کا گڑھ ہے لیکن لوگوں کو یقین نہیں آیا۔ جب اپنوں پرایوں نے متفقہ فیصلہ دیا کہ شرکاء کی تعداد کسی طور بھی دو ہزار کا چوتھا حصہ جو پانچ سو ہوتا ہے، سے زیادہ نہیں تھی اور یہ بھی متفقہ فیصلہ تھا کہ اس کی دوتہائی سے زیادہ تعداد ان نوجوانوں پر مشتمل تھی جو قریب ہی واقع افغان مہاجروں کی بستیوں کے پاس تھے۔
وزیر اعلیٰ گنڈاپور کی تقریر سے قبل ایک مقرر نے پشتو میں تقریر کی اور بار بار اپیلیں کیں کہ اگر آپ گریٹ خان کے چاہنے والے، ان پر جان نثار کرنے والے ہیں تو خدارا گھروں سے نکلیں اور جلسے میں آئیں۔ یہ تقریر بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ لیکن لوگ نہیں آتے اور جب گنڈاپور نے خطاب کیا تو حاضرین کی تعداد اور بھی کم ہو گئی تھی۔ بہرحال یہ بیان صحیح نہیں کہ حاضرین کی تعداد سٹیج پر موجود لوگوں سے بھی کم تھی۔حقیقت یہ ہے کہ شرکا کی تعداد ہر صورت سٹیج پر موجود قائدین سے زیادہ تھی۔
_____
وزیر اعلیٰ گنڈاپور تقریر کیلئے آئے تو بہت مشتعل تھے۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ گھر سے ہی غیظ و غضب کے عالم میں نکلے تھے یا حاضرین کی عدیم الشان تعداد دیکھ کر مشتعل ہو گئے۔ عدیم کے معنے موجود نہ ہونا کے ہیں اور شان کا مطلب شان ہی ہے۔
فرمایا، ہم پشتون نکلے تو تمہارا نام و نشان مٹا دیں گے۔ ہم پشتون کا مطلب تو واضح تھا، ’’تمہارا‘‘سے کیا مراد ہے؟۔ فرانسیسی، ڈچ یا کمپوچیا والے؟۔ آگے چل کر انہوں نے کہا تم نے بھٹو کو حکومت دلوانے کیلئے ملک توڑ دیا۔ تم اور تمہارا کی گویا وضاحت کر دی۔
ہم پشتون سے مراد واضح تو ہو ہی گئی لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں۔ مطلب یہ کہ جلسہ گاہ عرف گراسی گرا?نڈ میں ’’ہم پشتون‘‘ بہت قلیل تعداد میں تھے اور دوتہائی اکثریت ان دو ہزار کی افغان مہاجرین کی تھی۔ باقی ایک تہائی دو ہزار کے کتنے ہوئے؟۔
مطلب سات ہزار نکلیں گے اور تمہارا نام و نشان مٹا دیں گے۔ نیم مصدقہ یا تقریباً مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ اسی رات آپ نے حضرات کو فون کیا جن کو انہوں نے ’’تمہارا‘‘ کی تشبیہ سے مخاطب کیا تھا، اپنے خطاب کی معذرت کی، جذبات میں بہنے سے زیادہ جو عذر پیش کیا وہ یہ تھا کہ جلسے میں میڈیا کیلئے سودا بیچنا مجبوری ہے ورنہ ہم تمہارے ہیں صنم:۔ جان تم پر نثار کرتا ہوں، میں نہیں جانتا وفا کیا ہے۔
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ’’تمہارا‘‘ نامی فریق نے عرض گذاشت قبول کی یا نہیں کی۔
_____
قومی اسمبلی میں عمر ایوب صاحب شیخ رشید کے انداز کو اختیار کرتے ہوئے اس طرح کے فقرے ادا کر رہے تھے کہ میں اس حکومت کو جاتا دیکھ رہا ہوں، میں گریٹ خان کو رہا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں آئین کی اور جمہوریت کی بالادستی دیکھ رہا ہوں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما، شاید منور علی تالپور ان کا نام تھا، کھڑے ہو گئے اور کہا، میں دادا صاحب کے پوتا صاحب کو دیکھ رہا ہوں۔ اس فقرے پر عمر ایوب گڑبڑا گئے اور بے ربط فقروں کے بعد خطاب مختصر کر دیا۔
سبق: کبھی پوتا صاحب کو دوران خطاب دادا صاحب کی یاد نہیں دلانی چاہیے۔
_____
بات اصغر خاں سے شروع ہوئی تھی، انہی پر ختم ہونی چاہیے۔ وہ امریکہ کے آدمی سمجھے جاتے تھے اور یہ خبریں عام تھیں کہ امریکہ انہیں برسراقتدار لانا چاہتا ہے۔ لیکن اسی دوران ضیاء الحق نے امریکہ کو مخاطب کیا، اس میں ایسا کیا ہے جو مجھ میں نہیں اور یہ فرمانے کے بعد بھٹو کو ہٹا کر خود حکمراں بن گئے__ کہانی کا ایک باب یوں ختم ہوا۔