اسلام آباد‘ پشاور (آئی این پی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) خیبر پی کے کے 91 ترقیاتی منصوبوں کے خاتمے پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وزیراعظم کو خط لکھ دیا۔ خط میں کہا گیا کہ سالانہ منصوبہ بندی کمیٹی کے فیصلوں سے شدید مایوسی ہوئی۔ پی ایس ڈی پی سے 91 ترقیاتی منصوبے نکالنے سے صوبہ متاثر ہوگا۔ خط میں لکھا گیا کہ قومی اقتصادی کمیٹی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ جاری منصوبوں کو ترجیحی بنیادی پر مکمل کیا جائے گا، جاری منصوبوں کو نکالنا ایس آئی ایف سی اور قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں ک`ے خاتمہ سے صوبے کی محرومیوں میں اضافہ ہوگا، وفاق پی ایس ڈی پی پر نظرثانی کر کے تمام صوبوں کو ترقیاتی پروگرام میں مقررہ حصہ دے۔ ادھر تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی اسد قیصر، عاطف خان، شہرام ترکئی و دیگر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت خیبر پی کے اور نئے ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کی آواز دبانے سمیت عوامی مطالبات اور حالت زار کے حوالے سے مسلسل بے حسی کی مرتکب ہو رہی ہے، وفاقی حکومت کے حالیہ فیصلے کے تحت خیبر پختونخوا میں 91 ترقیاتی منصوبوں کے خاتمے سے مساوی ترقی اور صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے عمل کو دھچکا پہنچے گا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے صوبے کے سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی اہم تھے جو تعمیر و ترقی، صحت، تعلیم، اور توانائی پر مشتمل تھے۔ ان 91 منصوبوں میں سے کچھ 70 فیصد مکمل ہو چکے تھے لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ان منصوبوں کو روک دیا گیا۔ ان منصوبوں کی تفصیلات دو گھنٹے قبل 31 مئی کو سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کے اجلاس میں بتائی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کی عدم توجہ اور سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے خیبر پی کے کو پہلے ہی سے چیلنجز کا سامنا ہے، اس فیصلے سے صوبہ مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ اسد قیصر نے کہا کہ یہ منصوبے صرف مالی منصوبے نہیں تھے بلکہ ان منصوبوں کے نتیجے میں لوگوں کی معیار زندگیاں بہتر ہونی تھی۔ منصوبوں کی منسوخی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) اپیکس کمیٹی کے 3 جنوری کے اجلاس کے فیصلے کی بھی نفی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی نے کہا کہ یہ فیصلہ ممکنہ طور پر صوبوں کے درمیان ترقیاتی خلا کو وسیع کرنے اور سماجی و اقتصادی ناانصافی کو بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ وفاقی حکومت خیبر پی کے کو نیٹ ہائیڈل منافع میں 111 ارب روپے واجب الادا ہے جس میں 78 ارب روپے کے بقایاجات بھی شامل ہیں، ادائیگیوں کو مؤخر کرنے سے صوبہ مالی مشکلات سے دو چار ہے۔ ریاستی مشینری کے ذریعے کریک ڈاؤن نے لوگوں کے ریاستی اداروں پر اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے ۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے احتجاج کرنے والے شہریوں تک پہنچے اور ان کے مسائل کو جمہوری طریقے سے حل کرے۔ حکومت پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے اور چمن اور غلام خان کے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔