بجلی کے جائز نرخ ہم سب کا یکساں اور درست مطالبہ


ڈاکٹر عتیق الرحمن
نیلم جہلم پراجیکٹ صرف اہل مظفرآباد کو مہنگا نہیں پڑا، بلکہ پاکستان بھر کے سبھی کنزیومرز نے مدتوں اپنے بجلی بلز میں نیلم جہلم سرچارج کے نام پر اربوں کی ادائیگیاں کی ہیں. اب اگر کشمیری یہ کہیں کہ ہمیں پیداواری لاگت پر بجلی فراہم کی جائے تو فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لاگت کس نے ادا کی ہے، اور لاگت ادا کرنے والے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو پروجیکٹ کے ترجیحی فوائد کیوں ملیں؟ اس طرح کے مطالبات کشمیریوں کو قدرتی طور پاکستانی کنزیومرز کا معاشی حریف بناتی ہیں، جبکہ درحقیقت انہیں ایک دوسرے کا معاشی شراکت دار ہونا چاہئے۔ 
دراصل یہ مطالبات مدتوں ہونے والی زیادتیوں کا ایک ردعمل تھے۔ ایسی ہی کئی زیادتیوں کا شکارملک کے دیگر حصوں کے لوگ بھی ہیں۔مثلا ملک بھر میں شہریوں کو کیپیسٹی پیمنٹ کے نام پر اس بجلی کی ادئیگی بھی کرنی پڑتی ہے جو کبھی تخلیق ہی نہیں ہوئی۔ یقینا یہ اہل پاکستان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے، لیکن اہل پاکستان تاحال اس زیادتی پر خاموش  ہیں۔ اس قسم کے مشترکہ مظالم  اہل کشمیر بھی  مدتوں جھیلتے رہے ، لیکن ان سانجھے دکھوں کے علاوہ   زیادتیوں کا ایک  اور   لمبا  سلسلہ بھی ہے جو  تنہاکشمیریوں  کو مدتوں  جھیلنا پڑا، جس پر بالاخر ان  کا پیمانہ صبر لبریز ہو ہی گیا۔  ہمارے ہاں یہ مسائل بھی رہے جب صوبوں کے رہنے والے ملکی مفاد کو بھول  کر چھوٹے  چھوٹے علاقائی و ذاتی مفادات کے پیچھے قومی ترقی کا رستہ روکتے رہے ہیں۔ اس دوران  اگرچہ کشمیری اپنے مفادات کو نظر انداز کر کے پاکستان کے مفاد کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ 1990  کی دہائی میں پانی اور بجلی کی بڑھتی ضروریات کا احساس ہو چکا تھا اور پانی و بجلی کی پیداوار کیلئے موزوں ترین منصوبہ کالا باغ ڈیم تھا۔  لیکن کالا باغ ڈیم پرپاکستان کے تین صوبوں نے اعتراض کئے  اور بالاخر کالا باغ ڈیم نہیں بن پایا۔ متبادل کے طور پر منگلا ڈیم کی توسیع کا فیصلہ ہوا تو کشمیریوں نے خوش دلی سے تسلیم کر لیا۔چنانچہ میرپور کے مزید 40000  لوگوں کے مکانات اور املاک کو زیرآب غرق کر کے پاکستان کیلئے روشنیوں اور پانیوں کا بندوبست ہوا۔  اس کے بدلے میں مفت یا سستی بجلی کو تو چھوڑئیے، کم از کم لوڈ شیدنگ سے استثنا تو میرپور کے لوگوں کا حق تھا، لیکن  انہیں دگنا لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا۔ 
بجلی کی خرید کے حوالے سے حکومت پاکستان کے تین الگ الگ معیار رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ترجیحی سلوک  تھرمل آئی پی پیز سے کیا جاتا ہے  جنہیں ایک یونٹ کے عوض 25 سے 35 روپے ادا کئے جاتے ہیں، اور اس بجلی کی بھی ادائیگی کی جاتی ہے جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ دوسری ترجیح صوبہ پختونخواہ رہا، جنہیں 1.45 روپے فی یونٹ کے حساب سے واٹر  یوزیج چارجز  ملتے رہے۔ تیسری اور ا?خری ترجیح رہ گئے کشمیر کے لوگ  جن کو مدتوں منگلا ڈیم کے عوض کوئی رائلٹی مل ہی نہیں سکی۔ 2007  تک کشمیر کو منگلا ڈیم کے عوض کوئی واٹر یوزیج چارجز نہیں ملتے تھے۔ 2007   میں نیلم جہلم پروجیکٹ پر کام شروع ہونا تھا تو 15 پیسے فی یونٹ کے حساب سے منگلا کے عوض واٹر یوزیج چارجز دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ نیلم جہلم کی تکمیل پر اس کی پیداوار کے عوض 46 پیسے فی یونٹ ادا کئے گئے لیکن منگلا کے واٹر یوزیج چارجز بدستور 15 پیسے فی یونٹ رہے، جب کہ اس دوران تربیلا کی پیداوار پر صوبہ پختونخواہ کو 1.46 کے حساب سے ادائیگی ہوتی رہی۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ وہی بجلی جو تھرمل پروجیکٹس   سے 25 روپے سے زیادہ میں خریدی جاتی ہے، جبکہ  پختونخواہ کو 1.46 روپے  اور کشمیر کومحض 15 پیسے ادا کئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے فائنانشل فوائد کے حوالے سے ہائیڈرو پروجیکٹس میں  مقامی آبادی کے حقوق پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،  جس کی وجہ سے منگلا ڈیم جیسے بڑے پروجیکٹ کا مقامی معیشت میں حصہ 2 ارب سے تجاوز نہیں کر پایا۔  
2007 میں نیلم جہلم پروجیکٹ کی تعمیر کا مرحلہ درپیش آیا۔پختون خواہ اور بلوچستان  کے لوگوں کے برعکس اس  مرتبہ بھی اہل کشمیر نے پروجیکٹ کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے۔ اس پروجیکٹ کے اثرات سے مظفرآباد کی ماحولیات کو محفوظ رکھنے کے لئے انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی نے متعدد شرائط رکھی تھیں ،جن میں مظفرآباد کے گردونواح میں متعدد واٹر باڈیز کی تعمیر، دریا کے کنارے شجر کاری اور سیوریج واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب شامل تھے۔ ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہیں ہوئی اور پروجیکٹ شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے مظفرآباد شہر کی ماحولیات پر انتہائی منفی اثر پڑا۔ لیکن اس کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے واپڈا اور حکومت پاکستان نے کوئی اقدامات نہیں کئے۔
نیلم جہلم پراجیکٹ تکنیکی طور پر ایک مشکل پروجیکٹ تھا جب کہ اس کی نسبت کالا باغ ڈیم کئی زیادہ فوائد والا اور تکنیکی لحاظ سے آسان پروجیکٹ تھا جو کہ کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتا تھا۔ لیکن واپڈا نے کالاباغ ڈیم کی بجائے نیلم جہلم کو ترجیح دی اور اس کی وجہ سے سبھی واقف ہیں۔ پاکستان کے تین صوبوں نے اپنے اپنے تحفظات کی بنا پر کالاباغ ڈیم بنانے سے سختی سے منع کر دیا ، جبکہ مظفرآباد کے لوگوں نے اسی قسم کے تحفظات کے باوجود خوش دلی سے ڈیم کو قبول کر لیا۔ کیا اس کا یہ بدلہ مناسب تھا کہ وہ تمام چیزیں جن کا واپڈا نے وعدہ کر رکھا تھا ، ان سے انکار کر کے ماحولیاتی مسائل کا تدارک ہی نہ کیا گیا۔
چونکہ نیلم جہلم پروجیکٹ پر اخراجات پاکستانی عوام نے بذریعہ واپڈا اور بذریعہ حکومت پاکستان کر رکھے ہیں، یہ بات انوکھی محسوس ہوتی ہے اگر اخراجات برداشت کرنے والوں کی بجائے کشمیری رعایتی قیمت پر بجلی کی ترسیل کا مطالبہ کریں۔ چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ پنجابی کشمیروں سے نالاں ہیں کہ انہوں نے بلیک میل کر کے غیر منصفانہ حقوق حاصل کئے،جب کہ کشمیری پنجاب سے بیزار ہیں کہ ہزاروں میگاواٹ پیداوار کے عوض محض چند سو میگا واٹ پیداواری لاگت پر فراہم کئے جائیں گے۔ چنانچہ فریقین میں معاشی رقابت کا تصور پروان چڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اکائیوں میں معاشی حریف کی  بجائے معاشی شریک کار کا تصور پروان چڑھے۔  اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اور اپنے شریک کار کے حقوق کو پہچانا جائے۔ وفاقی کائیوں کے حقوق کے حوالے سے چند گزارشات عرض ہیں
1. وفاق اپنے زیر انتظام علاقائی وسائل کی تقسیم کا بندوبست ترک کر دے اور علاقائی وسائل کو متعلقہ علاقہ کی حکومت  کے کنٹرول میں دے دے۔
2. بجلی کے حالیہ چندمعاہدات BOOT-Buil, Own, Operate, Transfer کی بنیاد پر ہوئے جہاں  بنانیوالی کمپنی چند سال تک پروجیکٹ کی پیداوار سے استفادہ کرے گی اور مدت کی تکمیل پر پروجیکٹ کو مقامی حکومت کے حوالے کرے گی۔ ان معاہدات کی عمر 15 سے  سے 25 سال تک ہے۔ یعنی 15 سال بعد بنانے والی کمپنی پروجیکٹ کو مقامی حکومت کو دینے کی پابند ہے۔منگلا اور تربیلا ڈیم BOOT  کی پالیسی سے پہلے کے پروجیکٹ ہیں جن پر یہ پالیسی کا اطلاق نہیں ہوتا تا ہم ان پروجیکٹس کے معاہدوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کتنے عرصے میں اپنی لاگت پوری کر سکتا ہے۔ اگر ایک پروجیکٹ کی لاگت پوری کرنے کے لیے درکار عرصہ 20 سال تصور کیا جائے تو منگلا اور تربیلا ڈیم تین مرتبہ اپنی لاگت پوری کر چکے ہیں۔چنانچہ وفاق  کو چاہئے کہ علاقائی حق تسلیم کرتے ہوئے ان منصوبہ جات کو علاقائی حکومتوں کے حوالے کر دیا جانا چاہیے۔ 
3. جن علاقہ جات میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹس موجود ہیں بالعموم ان علاقوں کا واحد بڑا وسیلہ یہی پروجیکٹ ہے ان منصوبہ جات کو اتنا بے وقعت تصور نہ کیا جائے کہ یہ تھرمل پروجیکٹس کے مقابلے میں کچھ بھی محسوس نہ ہوں۔ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے عوض مقامی حکومتوں کو بجلی کی مارکیٹ پرائس کے کم از کم35 فیصد کے برابر ادائیگی کی جائے، تاکہ علاقائی حکومتیں اس پیسے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کے لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ کر سکیں۔4.  منگلا اور تربیلا  کے علاوہ بجلی کے ایسے پروجیکٹ جو اس سے پہلے مکمل ہو چکے ہیں ان کے عوض آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پختون خواہ کو نظر ثانی شدہ واٹر یوزر چارجز ادا کیے جائیں اور ان کی مقدار اتنی معقول ہونی چاہیے کہ وہ علاقائی معیشت میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔ 
5. مستقبل میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹ لگانے اور ان کی پیداوار استعمال کرنے کا اختیار علاقائی حکومت کو دیا جائے۔ حکومت پاکستان پہلے سے طے شدہ فارمولا کے مطابق پروجیکٹ کی آمدن میں سے اپنا حصہ وصول کرے۔  6.  بجلی کی خرید اور فروخت دونوں کام علاقائی ڈسٹریبیوشن کمپنیز کے سپرد کر دیے جائیں ہر ڈسٹریبیوشن کمپنی بجلی کی قیمت خود طے کرنے کے مجاز ہو اور اسی طرح ہر ڈسٹریبیوشن کمپنی اپنی مرضی کے پروڈیوسر سے بجلی خریدنے کی مجاز ہو۔ اس طرح بعض صوبوں کا یہ شکوہ ختم ہوگا کہ دوسرے علاقوں میں بجلی کے بل ادا نہ کرنے کا بوجھ  ان کے سر پر ڈالا جا رہا ہے۔ جب بجلی علاقائی  ڈسٹری بیو شن کمپنی نے خود خرید کر تقسیم کرنی ہو گی تو وہ یہ کوشش کرے گی کہ لائن لاسز کم سے کم ہوں۔ 
7. تھرمل پاور پروجیکٹس میں کم از کم 10 ہزار میگا واٹ کے پروجیکٹ ایسے ہیں جو حکومت کے اپنی ملکیت ہیں حکومت فوری طور پر ان پروجیکٹس کی کیپیسٹی پیمنٹ سے دستبردار ہو جائے تاکہ بجلی کی فی یونٹ لاگت کم ہو سکے اور کاروبار کو سہولت میسر آئے۔
8. تھرمل آئی پی پیز کے حوالے سے سیاستدان ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام حکومتوں کے ادوار میں تھرمل آئی پی پیز کو نئے لائسنس بھی  دئیے گئے۔ماحولیات اور مالیات دونوں امور کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے بعد کوئی تھرمل لائسنس نہ جاری کیا جائے۔ نہ ہی تجدید کی جائے، تاکہ رفتہ رفتہ تھرمل پروجیکٹ فیز آؤٹ ہو سکیں۔ ان کی بجائے قابل تجدیدذرائع سے بجلی بنانے کے لائسنس  جاری کئے جائیں۔ 
9. تھرمل پاور پروجیکٹس کے لیے ترجیحی ٹیرف اس وقت کی ضرورت تھی جب بجلی کا شارٹ فال بہت زیادہ تھا اب چونکہ بجلی سرپلس پیدا ہو چکی ہے اس لیے کوئی بھی نیا معاہدہ ترجیحی ٹیرف یا کپیسٹی پیمنٹ کی بنیاد پر ہرگز نہ کیا جائے اور جو معاہدات اپنی مدت مکمل کریں ان کی تجدید ہرگز نہ کی جائے۔ انصاف پسندی سے دیکھا جائے تومنگلا ڈیم کی آزاد کشمیر کو منتقلی  اور دیگر صوبوں کے برابر واٹر یوزیج چارجز  آزاد کشمیر کابنیادی حق  ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک حق آزاد کشمیر کو دے دیا جائے تو   اس کے باسیوں کو اس کہیں زیادہ فائدہ مل سکتا ہے جتنا حالیہ تحریک  کے نتیجے میں ان کو دیا گیا۔ چنانچہ ان حقوق کے ملنے پر  ملک کے دیگر حصوں کے عوام کو کئی تشویش نہیں ہونی چاہئے۔مندرجہ بالا اقدامات کے ذریعے وفاقی اکائیوں کو ایک دوسرے کے اقتصادی حریف کے بجائے ایک دوسرے کا اقتصادی شراکت دار بنایا جا سکتا ہے لیکن اگر وفاق نے اپنے زیر انتظام وسائل کی تقسیم کا سلسلہ جاری رکھا تو مختلف علاقوں کے عوام اور حکومتوں میں دوریاں بڑھتی رہیں گی اور ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن