وزیر اعظم صاحب نے تھوک کے حساب سے افسروں کو ترقیاں دیں۔ چار سوارب کی کارپوریشن کا چارج ایک میٹرک پاس ملتان کے خواجے کو دے دیا۔ ایک راندہ درگاہ اور سپریم کورٹ کے معتوب شخص کو چیف سیکرٹری سندھ لگا دیا اور زمام حکومت ایک ایسی عورت کے سپرد کر دیئے جس کی واحد خوبی وہ زرد مسکراہٹ تھی جو ہر وقت اس کے ہونٹوں پر رقصاں رہتی۔ انہوں نے نرگس سیٹھی کو پاکستان کو کونڈی (کونڈا لیزا رائیس) کہا۔ شاید ہی اس سے زیادہ بھونڈی تشبیہ کسی حکمران نے دی ہو۔ جب ٹی وی اینکرز نے ایک تسلسل کے ساتھ اس پر تبصرہ کرنا شروع کیا تو وہ اپنا بوریاں بستر اور گریڈ 22سمیٹ کر وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے چلتی بنی۔
عوام کو جل دینا وقتی طور پر شاید ممکن ہو لیکن اخباری اطلاعات سے کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل کا سپرنٹینڈنٹ کوئی پاکستانی نہیں بلکہ ریمنڈ ڈیوس ہے۔ مرکز اور صوبے کی شدید خواہش ہے کہ ملزم کو بالآخر باہر بھیجنے کا الزام دوسرے کے سر آئے۔
گزشتہ ساٹھ برسوں میں بے شمار حکومتیں آئیں لیکن اس قسم کا ماحول اور حالات دیکھنے میں نہیں آئے۔ نااہل، کرپٹ اور ظالم حکمران پہلے بھی ہو گزرے ہیں لیکن نااہلی اورکرپشن پہلی مرتبہ یکجا ہوئی ہیں۔ خطِ غربت پہلے بھی تھا لیکن اس مرتبہ خط غیب ہو گیا ہے، صرف غربت رہ گئی ہے۔ معیشت دم توڑتی ہوئی، غربت ہاتھ جوڑتی ہوئی، ہمت ساتھ چھوڑتی ہوئی۔ کاروان حیات تنگنائوں اور مسیب گھاٹیوں سے گزرتا ہوا اور صدائے جرس کارواں کانوں میں زہر گھولتی ہوئی۔ نہ منزل کا پتہ نہ نشانِ منزل…یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔ وافر مقدار میں پانی ہے لیکن کھیتوں کو ہریالی دیئے بغیر رزق سمندر ہو جاتا ہے۔ بجلی پیدا نہیں کرتا۔ پانچ سو سال تک استعمال ہونے والی کوئلہ کی کانیں ہیں۔ کوئلہ، ہنوز زیر زمین ہے، صرف قوم کا منہ کالا ہو رہا ہے۔ ریکوڈک کے پہاڑ سونے سے بھرے پڑے ہیں۔ سونا باہر نہیں آتا، فقط قوم کا مقدر ہی سو رہا ہے۔ من موجی حکمرانوں کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے۔ اگر سارا مشرق وسطیٰ اور افریقہ جاگ اٹھا ہے تو ہمالیہ کے چشمے کبھی کسی وقت اُبل سکتے ہیں جب نفرت اور غم و غصے کی آندھیاں چلتی ہیں تو سب سے پہلے تن آور درخت زمین بوس ہوتے ہیں۔