قندیلہ رانا
ازل سے کرہ ارض پر مرد عورت کا کام برابر سطح پر رہا ہے لیکن بعض خود ساختہ علماء کے خود غرض نظریات نے ان میں امتیاز پیدا کر دیا ہے اور عورت کو مرد کے زیردست کر دیا ہے۔باوجود ساری معاشی، معاشرتی اور جسمانی طاقت کے اس امتیازی نظریہ کو مردوں کو رواں رکھنے میں بڑی ہی دشواریاں پیش آئیںاور عورت مسلسل جبر کے باوجود دب نہ سکی۔ حال کے دروازے پہ عورت کے حق میں بار بار دستک ہو رہی ہے جس میں وہ قانونی، سماجی اور سیاسی سطحوں پر کامیاب بھی ہوئی اور آج زندگی کے ہر میدان میں عورت مردوں کے شانہ بشانہ کامیاب چل رہی ہے۔ماضی کے جبر زدہ مردوںکے معاشرے میں جن عورتوں نے انتھک کام کیا ان میں سے ایک نام ”مدر ٹریسا“ کا بھی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی دکھی انسانیت کے لیے وقف کر دی اور لوگوں کی خوشیوں کو اپنا یا۔ مدر ٹریسا کا اصل نام ای گینیز غونژا تھا۔ وہ 1910ءکو سلطنت عثمانیہ میں پیدا ہوئیں جہاں کے گلستان اپنی شہرت رکھتے تھے۔ وہ آٹھ برس کی عمر میں ہی یتیم ہو گئی۔ ماں نے اسے مذہب کے نام پر زندگی وقف کر دینے والوں کی اتنی داستانیں سنائیں کہ وہ راتوں کو ان لوگوں کو خواب میں دیکھنے لگی۔جنہوں نے دنیا ترک کر کہ انسانوں کی خدمت کی۔ اس کے بعد مدر ٹریسا نے بھی ا پنی زند گی وقف کرتے ہوئے اس مقدس کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔18 برس کی عمر میں اپنی ماں اور بہن کو آخری بار دیکھ کر انسانیت کی خدمت کے لیے ایک نئے سفر پر رواں ہو ئی ۔آج کے اس باشعور معاشرے میں جہاں آزاد میڈیا ہر طرف چھایا ہے عورت پھر بھی ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس بگڑے ہوئے معاشرے کو سنوارنے کے لیے کئی مدرٹریساﺅ ں کی ضرورت ہے۔ حوا کی بیٹی کو اپنی ذہنی صلاحیتوں اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کو من ،تن دھن سے نا صرف خواتین کے حقوق کےلئے علم بلند کرنا چاہیے بلکہ انسانیت کی خدمت کا بھی بیڑہ اٹھانا چاہیے۔اس سے عورت معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے اور سماج میں خواتین کی عزت و توقیر میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگا۔جو خواتین مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں ان پر یہ فرض ہے کہ وہ دوسری بہنوں کی بھی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اس طرح اپنا روزگار بہتر بنا سکیںاور سوسائٹی بھی ان کی خدمات سے مستفید ہو سکے۔مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی جھوٹی انا کی دیوار گرا کر خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں تو یہ دنیا اور ہمارا معاشرہ مثالی بن سکتا ہے۔