شخصی حسن ووجاہت، سیاست، خطابت، صحافت، وکالت اور صدارت میں دیانت و امانت اور روشن کردار کے پیکر کے ایچ خورشید 11 مارچ 1987ءکو ایک ویگن میں میر پور سے لاہور جاتے ہوئے گوجرانوالہ میں ٹریفک کے حادثہ میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اپنی ان خوبیوں کے ساتھ وہ آج بھی کشمیری عوام کے دلوں میں پھولوں کی مہک کی طرح زندہ ہیں۔ اس حادثہ سے دو روز پہلے کے ایچ خورشید نے آزاد کشمیر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ایک خوبصورت تقریر سے ممبران اسمبلی اور ہم جیسے گیلری میں بیٹھے نیامندوں کو محظوظ کیا تھا۔ آزاد کشمیر میں سردار سکندر حیات وزیراعظم کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں مسلم کانفرنس کونمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ آزاد کشمیر میں لبریشن لیگ، جماعت اسلامی اور آزاد کشمیر مسلم کانفرنس نے کے ایچ خورشید کی قیادت میں ان انتخابات کے خلاف متحدہ محاذ بنا رکھا تھا۔ پاکستان میں محمد خان جونیجو وزیراعظم کی کابینہ میں سردار عباسی وزیر امور کشمیر تھے۔ وہ مظفر آباد آئے اور مسلم کانفرنس کی حکومت اور متحدہ محاذ میں صلح صفائی کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد اسمبلی کے اجلاس میں کے ایچ خورشید نے اپنی خوبصورت تقریر میں اس خوبصورت شعر کے ساتھ ایوان کو محظوظ کیا....
ایک ہی جام نے دونوں کا بھرم کھول دیا
شیخ مسجد کو گئے رند مے خانے کو
کے ایچ خورشید جموں شہر کے ایک دینی و علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد مولوی محمد حسن ریاست جموں کشمیر میں انسپکٹر سکولز کی حیثیت میں زیادہ عرصہ گلگت بلتستان اور صوبہ کشمیر میں تعینات رہے تھے۔ کے ایچ خورشید گلگت میں پیدا ہوئے تھے اور تعلیم زیادہ عرصہ سری نگر کے کالج میں پائی تھی۔ کالج کی تعلیم کے آخری چند سال وہ پرنس آف ویلز کالج جموں میں بھی زیر تعلیم رہے تھے۔ وہ کشمیر میں اس وقت طلباءکی تنظیم سٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی تھے۔ تحریک پاکستان عروج پر تھی۔ کے ایچ خورشید ذوق صحافت سے بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے ذہین ترین سیاستدان، سحر بیان خطیب اور صاحب طرز ادیب اے آر ساغر کے پاپولر اور طاقتور ہفت روزہ جاوید کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر وابستہ تھے۔ قائداعظمؒ کے مئی، جون 1944ءکے دو ماہ کے قیام سری نگر کے دوران کے ایچ خورشید طالب علم لیڈر کے طور پر قائداعظم کی خدمت میں حاضر رہتے اور ان کی ڈاک پر کام کرتے تھے۔ قائداعظم کی نظر انتخاب میں خورشید اتر گئے اور قائداعظم انہیں پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر ساتھ لے گئے۔ تحریک پاکستان کے اس عروج کے زمانہ میں جبکہ برطانوی مشن آتے رہے اور قائداعظمؒ گول میر کانفرنس میں شرکت کےلئے لندن تشریف لے گئے تو کے ایچ خورشید کےساتھ گئے تھے۔ قائداعظمؒ گورنر جنرل پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر سرفراز ہوئے تو کے ایچ خورشید ان کےلئے اسسٹنٹ سیکرٹری تعینات ہوئے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ کے ایچ خورشید کشمیر کے اندرونی حالات کا جائزہ لینے کےلئے کشمیر گئے تو وہاں پر گرفتار کر لئے گئے تھے۔ اس نظر بندی سے خورشید جنوری1949ءمیں مسلم کانفرنس کے دوسرے 22 لیڈروں کے ساتھ رہا ہو کر پاکستان آئے تھے۔ خورشید نے کراچی میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ قیام کیا۔ لندن میں بار ایٹ لا کیا اور پاکستان میں اپنے انگریزی ہفت روزہ گارڈین کا اجرا کیا۔ وہ آزاد کشمیر کی سیاست میں دلچسپی لیتے رہے۔ 1957 میں چودھری غلام عباس نے سیز فائر لائن توڑ دو کی پرجوش تحریک شروع کی تو کے ایچ خورشید اس کے سیکرٹری جنرل کے طور پر دو بارہ چودھری غلام عباس کے ساتھ گرفتار کئے گئے تھے۔ اسی دوران کے ایچ خورشید اس وقت کے آزاد کشمیر رولز آف بزنس کے مطابق مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل اور حکومت پاکستان (وزارت امور کشمیر) کی مشاورت سے آزاد کشمیر کے صدر مقرر کئے گئے۔ خورشید نے پانچ سال تک آزاد جموں و کشمیر کے صدر کے طور پر اپنی قابلیت، صلاحیت اور ایک باوقار صدر کے طور پر حکمرانی کے روشن نقوش چھوڑے تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ قائم کی اور آزاد جموں وکشمیر حکومت کو تحریک فلسطین کے طور پر تسلیم کرانے کا دلکش نعرہ دیا تھا۔ انہوں نے صدر ایوب خان کی ہدایت کے مطابق آزاد کشمیر میں بی ڈی نظام اور سیاستانوں کے احتساب کے لئے ایبڈو کا قانون نافذ کیا۔1973 میں خورشید ذوالفقار علی بھٹو کے دباﺅ پر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے تھے لیکن زیادہ دیر اس جماعت میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکے۔ اپنی کشمیر لبریشن لیگ کو پھر زندہ کر دیا۔ کے ایچ خورشید نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں کاسا بلانکا میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کر کے کشمیر کے مسئلہ پر ایک موثر قرار داد منظور کرائی تھی....
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لع¿یم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے