ساﺅتھ افریقہ نے پاکستان کو تینوں ٹیسٹ میچوں میں ذلت آمیز شکستوں کے بعد آج 5 ون ڈے میچوں کی سیریز کا پہلا ون ڈے ایک بڑے مارجن سے جیت کر ون ڈے سیریز بھی شاید جیتنے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ کل کے تبصرے میں بھی لکھا تھا کہ پاکستانی ٹیم کاغذوں پر بہت بڑی ٹیم نظر آرہی ہے مگر دیکھیں میدان میں کونسی ٹیم اُتاری جاتی ہے تو پاکستان نے صرف بیٹسمینوں کی ٹیم میدان میں اتار دی اور باﺅلنگ کافی کمزور کر دی۔ پاکستان ساﺅتھ افریقہ کی باﺅنسی وکٹوں پر 4 سپنروں اور صرف 2 فاسٹ باﺅلروں سے کھیلا اور شکست کا مارجن بہت بڑا یعنی 125 رنز سے ہار گیا۔پاکستانی ٹیم میں 8½ بیٹسمین کھیل رہے تھے۔ عمر گل کو آدھے بیٹسمین کے طور پر میں ٹیم میں شامل کرتا ہوں اور جو بیٹسمین ٹیم میں تھے، وہ زیادہ تر چلے ہوئے کارتوس تھے جو ورلڈکپ 2015ءتک یا تو ان کی کرکٹ ختم ہو چکی ہوگی یا یوں کہہ لیں کہ شاید چلنے پھرنے سے بھی معذور ہونے کے قریب ہوں۔ ایسے کارتوسوں کو بہتر ہے اس دورے کے بعد ریٹائر کر دیا جائے، یعنی یونس خان، مصباح الحق، عمر گل، کامران اکمل اور سفارشیوں کا بادشاہ دفع دفع شاہد آفریدی۔میں نے آفریدی کو بوم بوم کبھی بھی نہیں لکھا کیونکہ یہ ایک حادثاتی کرکٹر تھا۔ صوبائی سفارش اور شکل کا اچھا ہونے کی وجہ سے عوام خاص کر عورتوں نے پسند کیا، اتنی کرکٹ کھیل گیا یعنی 350 میچوں سے اوپر میچ کھیل گیا اور ماسوائے ایک دو میچوں میں پاکستان کو کامیابی دلانے کے اس کی پرفارمنس اپنی ذات کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی۔ آج کا ہی میچ لیں، اسے ایک اوور میں 5 چوکے لگے۔ 350 میچ کھیلنے کے باوجود کرکٹر نہ بن سکا۔ بہتر تھا اس کی جگہ وہاب ریاض کو کھلایا جاتا۔ حفیظ، آفریدی اور شعیب ملک بحیثیت سپنر ڈالنے کی کیا ضرورت تھی، وہ بھی دنیا کے نمبر ایک سپنر سعید اجمل کے ہوتے ہوئے اور پاکستان کی اس شکست پر اس لئے بھی زیادہ دکھ ہوا کہ ساﺅتھ افریقہ کی آج کی باﺅلنگ کمزور ترین تھی، نہ سٹین، نہ مورکل، نہ فیلنڈر، نہ جیک کیلس اور پاکستان 125 رنز سے ہارا۔ جب آپ سفارشیوں کو کھلائیں گے تو نتیجہ ایسے ہی نکلے گا اگر سلیکٹروں نے چلے ہوئے کارتوسوں کو ہی کھلانا ہے تو ٹیسٹ کرکٹ میں ڈالے رکھیں، ان کی عزت بھی رہے گی اور پاکستان کی عزت بھی بچی رہے گی۔
چونکہ ورلڈکپ ون ڈے کرکٹ میں 50 اووروں کے میچ ہوتے ہیں، حالیہ 3 ٹیسٹوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد پاکستان کو ایک ہی خوشی ملی جب وہ T-20 کا میچ جیت گیا۔ اس جیت میں مدمقابل ساﺅتھ افریقہ کی ایک بہت کمزور اور نئی ٹیم تھی۔ صرف ایک سٹار ڈی ویلرز تھے، باقی کھلاڑیوں کے نام تک کرکٹ سرکل میں کسی کو یاد نہ تھے۔وقت نیوز کے پروگرام ”آج گیم بیٹ“ میں میں نے ہاتھ جوڑ کر آفریدی سے ریٹائر ہونے کے لئے کہا ہے کیونکہ ایک کھلاڑی کا بغیر پرفارمنس کے اتنی لمبی کرکٹ کھیل جانا معجزے اور سفارش کی انتہا سے کم نہیں ہے اگر سلیکٹر انہیں ٹیم سے نہیں نکالتے۔ خدارا! قوم کے بہتر مفاد کی خاطر خود کرکٹ چھوڑ دو۔ یہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ہے مصباح الیون، وٹمور الیون، حفیظ الیون، ذکاءاشرف الیون یا آفریدی الیون نہیں ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستانی ٹیم کو 2015ءکے ورلڈکپ کے لئے تیار کیا جائے اور تمام سفارشی بغیر پرفارمنس کھیلنے والے چلے ہوئے کارتوسوں کو ٹیم سے نکال باہر کیا جائے۔ یہ پوری قوم کی آواز ہے۔ میں کامران اکمل کا فین تھا مگر اس نے آج بدترین وکٹ کپنگ کا مظاہرہ کیا۔