اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ کے حراستی مرکزسے لاپتہ ہونے والے 35 افرادسے متعلق مقدمہ میں قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں وزیر اعظم ،صوبائی وزیرا علیٰ اور گورنر کے پی کے کی جانب سے تاحال عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے ،عدالت سے مذاق نہ کیا جائے معاملہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے عدالت نے حقائق پر مبنی پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یاسین شاہ سمیت لاپتہ افراد کو بازیاب کرواکر عدالت میں (آج) منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک پیش کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالت قانون کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق حکم جاری کرے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ مقدمہ ہے جس میں کسی کو بھی عدالتی احکامات کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے‘ سات ماہ گزرگئے صوبائی حکومت نے ایف آئی آر درج کی ہے اور نہ ہی کوئی تفتیشی افسر مقرر کیا ہے‘ حد یہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے مقدمے کے ابتدائی نکات لے کر آگئے ہیں اور کوئی پیشرفت رپورٹ نہیں دی‘ جو افراد بازیاب ہوچکے ہیں ان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات کرائی جائے‘ ہمیں اس سطح تک نہ لے جائیں کہ جس تک ہم نہیں جانا چاہتے‘ ہمارے صبر کا امتحان اب نہ لیا جائے تو بہتر ہے‘ تو چل میں چل سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہورہا۔ وزارت دفاع کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی۔ لطیف یوسفزئی نے کہا کہ۔ اے جی کے پی کے نے بتایا کہ ایک شخص نے 35 افراد کو اپنے قبضے میں لے لیا اور فوج کے حوالے کیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کا تجربہ ہم سے زیادہ ہے۔ ایف آئی آر ہے نہیں تو پھر کس طرح تفتیش ہورہی ہے۔ آپ کی رپورٹ پڑھ لی ہے تفتیش کا ایک خاص مطلب ہے‘ فوجداری نوعیت کا معاملہ لگتا ہے۔ نیب کیس میں بھی تفیش کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ اے جی کے پی کے نے بتایا کہ تفتیش ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ہوگی۔ یہ لاپتہ افراد ایک مخصوص شخص کے حوالے کئے گئے ہیں اس شخص سے پوچھا جائے کہ یہ بندے کہاں گئے ہیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی پراگرس نہیں ہے یہ تو مذاق ہے۔ اٹارنی جنرل بتائیں کہ یہ تفتیش کا معیارہے تو پھر اس کا مطلب ہ کہ کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح سے تفتیش ہوگی توعدالت اور لاپتہ فرد کا بھائی محبت شاہ اسے مسترد کردے گا۔ تو چل سو چل کا معاملہ چل رہا ہے چٹھیاں لکھی جارہی ہیں لیکن ہو کچھ نہیں رہا۔ چالیس سال مجھے ہوگئے ہیں مجھے تو اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کچھ وقت دئیے جانے کی استدعاء کی کہ وہ متعلقہ حکام سے بات کرکے جواب دیں گے۔ جسٹس جواد نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم پہلے بھی آپ کو وقت دے چکے ہیں آپ کے کہنے پر ہی وقت دیا تھا۔این این آئی کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ لوگوں کو حقوق نہیں دے سکتے تو انہیں کہیں کہ وہ بیرون ملک ہی چلے جائیں۔ آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کی جائیں گی تو لاقانونیت بڑھے گی۔ تاسف ملک کیس میں سپریم کورٹ نے ملٹری انٹیلی جنس کے میجر علی احسن کو پولیس تفتیش میں شامل کرنے کے لئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور کو ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ 14مارچ تک لاپتہ شخص ہر صورت پیش کیا جائے بصورت دیگرعدالت میجر علی احسن کے کمانڈنگ افسر کو براہ راست حکم جاری کرے گی جبکہ ایم آئی کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے دلائل کی اجازت نہ ملنے پر وکالت نامے واپس لینے کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کیا ہے ۔ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بہت عرصہ گزر گیا اب مزید مہلت نہیں دے سکتے میجر علی احسن(جعلی نام میجر حیدر علی) پولیس کی تحقیقات میں خود کو پیش کریںٹر ائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا یا عام عدالت میں اس کا فیصلہ بعد میں کرینگے تاحال کوئی مثبت پیش رفت نہیںہوئی ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا ہے کہ میجر علی احسن خضدار میں آپریشنل ایریا میں ہیں ان کے حوالے سے نہیں بتایا جاسکتا آرمی افسر کے خلاف تحقیقات کا اختیار بھی صرف آرمی کو ہی ہے جبکہ تاسف ملک کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا ہے کہ آرمی کو تحقیقات کا ا ختیار نہیں ہے اگر ایسی بات ہے تو آرمی اپنے متعلقہ قوانین سے متعلق اپنا کوئی وکیل عدالت میں پیش کرے تحقیقات کاحق صرف پولیس کو حاصل ہے۔ ابراہیم ستی نے ایم آئی کی جانب سے بتلایا کہ سپریم کورٹ اپنے پانچ فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ آرمی افسران کیخلاف تحقیقات یا کارروائی پولیس کا دائرہ کار میں نہیں آتی اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کس کی جانب سے پیش ہورہے ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں اس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ ایم آئی کی جانب سے پیش ہورہے ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ وہ بیٹھ جائیں ابھی ایسی سٹیج نہیں آئی کہ ان کو سنا جائے۔