تھر میں ہلاکتیں ہر سال ہوتی ہیں صورتحال اسقدر سنگین نہیں جتنی میڈیا نے پیش کی: خورشید شاہ

لاہور (این این آئی + نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلا ف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لئے نئی کمیٹی کی تشکیل کے لئے  مشاورت نہیں کی،  اگر عمران خان مذاکراتی کمیٹی کے ممبر بن جاتے تو پوری پارلیمنٹ کی نمائندگی ہو جاتی، طالبان کہتے ہیں کہ فوج انکے خلاف آپریشن کرتی ہے اگر مذاکرات میں فوج شامل ہوئی اور یہ ناکام ہو گئے تو اسکی ذمہ داری فوج پر عائد کی جائے گی، تحریک انصاف طالبان کو سیاسی دفتر کھولنے کی پیشکش کرکے ماورائے آئین اقدام کر رہی ہے، تھر میں حالات اتنے برے نہیں جتنے میڈیا نے پیش کئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے، عمران خان کو پتہ ہونا چاہئے کہ صوبائی الیکشن کمشنر کا تقرر حکومتیں نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز لاہور ائیر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ تھر کے معاملے میں میں کسی کا دفاع نہیںکروں گا جو بہتر کرنے والا کام ہے اسے ہونا چاہئے تاہم تھر میں اتنے برے حالات نہیں جتنے میڈیا نے پیش کئے۔ قدرتی آفت کو نہ میڈیا روک سکتا ہے اور نہ حکومت۔ صوبائی حکومت نے ذمہ داران کے خلاف ایکشن لیا ہے اور کئی افسران کو معطل کیا گیا ہے۔ انہوں  نے تحریک انصاف کی طرف سے طالبان کو سیاسی دفتر کھولنے کی پیشکش کے سوال کے جواب میں کہا کہ ایک کالعدم تنظیم کو ایسی پیشکش ماورائے آئین ہے اور ان لوگوں نے 60 ہزار لوگوں کو شہید کیا ہے۔ چلو حکومت تو مذاکرات کر رہی ہے لیکن مذاکرات کے نتائج سامنے آنے سے قبل طالبان کی اس طرح سے حمایت قابل افسوس ہے۔ انہوں نے لاہور اور اسلام آباد ائر پورٹ پر ائیر لیگ کے کارکنوں کیخلاف اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت طالبان سے تو لڑ نہیں سکتی لیکن مزدوروں پر حملہ کر دیتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ایک سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اس طرح کے طریقے جمہوریت کے لئے اچھے نہیں ہیں۔ فوج کو مذاکرات کے معاملے میں غیر جانبدار رہنا چاہئے اور حکومت جو بھی فیصلہ کرے فوج کو اس پر عمل کرنا چاہئے۔ انہوں نے طالبان کی طرف سے اس بیان کہ اصل طاقت فوج ہے کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے بھی پانچ سال حکومت کی ہے اور سخت سے سخت فیصلے کئے ہیں جمہوری دور میں پارلیمنٹ اور ریاست ہی بااختیار ہوتی ہے۔ ایک انٹرویو میں خورشید شاہ نے کہا کہ علاقے میں سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے دو وزٹ کے بعد اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کے ذخائر موجود تھے چونکہ محکمہ خوراک کی جانب سے اس مقصد کے لئے رقم جاری نہیں کی گئی تھی اس لئے اس کو تقسیم نہیں کیا جاسکا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ انہیں 48 اموات کے بارے میں سرکاری طور پر مطلع کیا گیا تھا۔ اس طرح کے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں اور یہ اس علاقے میں کوئی نئی بات نہیں تاہم خدشہ ہے اس سال اموات کی تعداد پچھلے سالوں سے کچھ زیادہ ہو۔ سرکاری غفلت کی وجہ سے ایک بھی موت قابلِ قبول نہیں ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...