تھرپارکر کا سُپرمین اور ناچ بِلو ناچ

فرانس کی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ فرانس کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ مر رہے تھے، سسک رہے تھے جب یہ خبریں شہنشاہ فرانس کے محل میں پہنچی تو ملکہ میری(Mery) نے اپنے وزیر کو بلوایا اور پوچھا یہ کیا خبریں آ رہی ہیں تو وزیر نے جواب دیا غربت ،بھوک،افلاس کی وجہ سے لوگوں کے پاس کھانے کو بریڈBread نہیں تو حالات سے غافل ملکہ جھٹ سے بولی اگر ان کے پاس بریڈ نہیں تو لوگوں کو کیکCake کھاناچاہیے۔محالات میں پرورش پانے والی ملکہ کو کیا خبر تھی کہ جنہیں روٹی کا ایک ٹکڑا نہیں مل رہا وہ کیک جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایسے بے شمار واقعات تاریخ انسانی کے صفحات پہ موجود ہیں۔ جیسے روم میں اندرونی خلفشار کی وجہ سے بدامنی تھی شہر میں جا بجا آگ لگی ہوئی تھی اور شہنشاہ روم محل کے لان میں بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ جیسے 1971ء میں ادھر سقوطِ ڈھاکہ ہو رہا تھا اور ادھر صدر آغا یحییٰ خان ہزاروں سال لڑنے کی، کھیتوں کھلیانوں میں جنگ جاری رکھنے کی ،شراب کے نشے میں دھت بڑھکیں لگا رہا تھا۔جبکہ نائن الیون کے بعد عالمی امن بحال کرنے اور القاعدہ کو ختم کرنے کے منصوبے میں اب تک ایک کروڑ انسانوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ قیام پاکستان کے مقصد کو لے لیں ابھی تک کوئی ایک مقصد بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ پاکستان مسلسل جاگیرداروں ،وڈیروں، سرمایہ داروں، نوابوں، مخدوموں اور امیرزادوں کے تسلط میں ہے۔ ملک کی صرف دو پرسنٹ اشرافیہ 98فیصد غریب عوام کا خون نچوڑ کر ہمارے وطن کے اقتدار پر ڈریکولا بن کے بیٹھے ہیں۔ پہلے صرف بائیس خاندان ملک کی معیشت پر مسلط تھے، تو اب پانچ سو خاندان کے چنگل میں وطن عزیز پھنسا ہے۔
 گذشتہ دور حکومت میں مسٹر ٹین پرسنٹ ترقی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بن چکے ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ملکی خزانے سے ہزاروں ارب روپے لوٹے گئے اور صرف حکمران خاندان کے اثاثے بڑھ کر 70 ارب ڈالر کی سطح سے تجاوز کر گئے۔ صرف دو سابقہ وزرائے اعظم کے خاندانوں نے 3ہزار ارب کا ٹیکہ اس ملک کو لگایا جبکہ کابینہ اور حکومت میں موجود خواتین ڈاکوئوں نے سینکڑوں ارب روپے لوٹ کر عالمی ریکارڈ قائم کیا جس کی ایک مثال بے نظیر شہید انکم سپورٹ پروگرام کی اس وقت کی چیئرپرسن فرزانہ راجہ ہیں۔ موصوفہ مال غنیمت لے کر امریکہ فرار ہو چکی ہیں جبکہ سابق صدر کی پولیٹیکل سیکرٹری رخسانہ بنگش بھی سینکڑوں ارب کا ٹیکہ لگا کر دوبئی اور انگلینڈ میں پراپرٹی ایکون میں اپنا نام لکھوا چکی ہیں۔ جبکہ قدیم وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ،سراج درانی اور فہمیدہ مرزا، نوید قمر جیسے لوگ بھی سینکڑوں ارب کی پراپرٹیاں اندرون یا بیرون ملک بنا چکے ہیں۔ پچھلے چھ سال میں سندھ میں بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے کے باوجود پیپلزپارٹی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کراچی سے گھوٹکی تک اور تھر راجھستان تک سڑکوں کا نام نشان فقط کاغذات اور نقشوں تک محدود ہے۔ تعلیم کے نام پر 99فیصد فنڈز ہڑپ کر لیے گئے ہیں جبکہ صحت کے لیے محض فنڈز بھی 99فیصد خرد برد کر لیے گئے ہیں جبکہ 70فیصد سرکاری زمینوں پر انہی وڈیرے خاندانوں کا قبضہ ہے۔اور طرح وفاق اور پنجاب کے موجودہ حکمرانوں کا دامن بھی کرپشن کے الزامات سے بھرا پڑا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک چھوٹی سے بھٹی جو ایک کچے مکان میں قائم تھی آج اس کے مالکان لاہور، جدہ، دلی، کینیا، ملائشیا، دوبئی،قطر، لندن، ٹورنٹو، نیویارک میں کھربوں کی پراپرٹی اور فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ صرف انگلینڈ میں اس خاندان کے مالی پوزیشن کا اندازہ 2 بلین پونڈز جو کہ روپوں میں 12 کھرب روپے بنتے ہیں۔
مگر آج کے سانحہ ’’تھر‘‘ کی طرف آتے ہیں2014ء کے جدید پاکستان میں ایک خاندانی شہزادہ ’’سُپرمین‘‘ کا لوگو اپنی شرٹ پہ سجائے دنیا بھر کے ممالک سے مشہور سنگرز، ڈانسرز اور فنکار تھر کے ریگستان میں مدعو کرتا ہے۔ موہنجوداڑو کے قدیم ہزاروں سال پرانے کھنڈرات میں زندگی کی تمام تر رعنائیوں اور رنگوں کے ساتھ روشنیوں کی چمک میں سندھ دھرتی کی کھوئی ہوئی ثقافت کو تلاش کرنا چاہتا ہے مگر معصوم ہے وہ شہزادہ کہ اسے پتہ نہیں کہ ان کھنڈروں کے نیچے فنا ہونے والی قوم جو کروڑوں ٹن مٹی کے نیچے دبی ہوئی ہے اس قوم کی ہلاکت اور تباہی کی وجہ کیا رہی ہو گی؟ کیا موہنجوداڑو کی قوم بھی ہماری قوم کی طرح بے حس ہو چکی ہو گی؟ اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور حقوق غضب ہونے پر یہ قوم بھی کہتی ہو گی کہ ’’سانوں کی‘‘ ایک طرف ایک سندھی شہزادہ سُپرمین کالوگو سینے پہ سجائے اربوں روپے کی کمپین کرکے سندھ ثقافت کو تلاش کر رہا ہے (اور یہ مستند خبر ہے کہ سُپرمین کا لوگو(Logo) استعمال کرنے پر کمپنی نے سندھ ثقافت آرگنائزڈ کمپنی کو 20ملین ڈالر 20 ارب روپے کا نوٹس بھجوا دیا ہے جو دینا ہی پڑے گا) جبکہ دوسری طرف ملک کی دوسرے حصے میں ایک شہزادے اور شہزادی کی خواہش پر گنز بک کے عالمی ریکارڈ توڑنے کا پر عیاشانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پھر ایسے میں ’’تھر‘‘ جیسے سانحات نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔ ’’بسمہ جیسی مائیں‘‘ اپنے بچوں کا جو بھوک کے ہاتھوں بِلک رہے تھے کا گلہ کاٹنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔ تھر میں صورت حال یہ ہے کہ سینکڑوں بچے موت کو گلے لگا چکے ہیں اور پاکستان صومالیہ اور سوڈان کا نقشہ پیش کر رہا ہے مگر بزرگ وزیر اعلیٰ بڑے اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ بس یہ ایکسڈنٹ ہو گیا ۔ تِکے اور کبابوں کی لذتیں لینے والوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے والوں کی تکلیف کا کیا پتہ۔ ابھی ابھی تھر کے ریگستانوں میں سِسک سِسک کر مرنے والے عوام کی آنکھوں میں موہنجوداڑو کی سرزمین پہ تھرکتے بدن ،بجلیاں گراتی تتلیاں، صوفیاء کا کلام پاپ کی تھاپ پر یہ مناظر محفوظ ہوں گے مگر تخت لاہور کے شہزادے شہزادیاں اور سندھ دھرتی کے شہزادے شہزادیاں اس سانحات سے بے خبر دیارِ غیر میں مارچ بریک کی چھٹیاں منانے میں مصروف ہیں اور اپنے رفقاء کے ہجوم میں لاہور موہنجوداڑو اور تھر کے واقعات سے بے خبر ’’سُپرمین کے مین‘‘ناچ بِلو ناچ کی تال پر محو رقص ہیں۔ ارے مر گئی عوام تو حکمرانی کس پر کرو گے؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...