لاہور ( معین اظہر سے) جماعت اسلامی کے امیر کے انتخابات میں پہلی مرتبہ جماعت اسلامی دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک گروپ جماعت سیاسی طور پر کمزور ہونے اور اس جماعت کو سیاسی بنیادوں پر آگے لے جانے کا خواہاں ہے۔ جبکہ دوسر ا گروپ قدامت پسندی کو سپورٹ کر رہا ہے جس میں جماعت اسلامی کی فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ ہیں۔ ان حالات کے بعد امیر جماعت اسلامی کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے بعض ذمہ داران پہلی مرتبہ امیر جماعت اسلامی کیلئے ہونیوالے مقابلے کو انتہائی سخت قرار دے رہے ہیں۔ موجودہ امیر منور حسن کی موجودگی میں وہ کسی اپ سیٹ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جبکہ دیگر دوامیدوار سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور سراج الحق کوئی اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں آج تک سٹنگ امیر کے ہوتے ہوئے کوئی اور جیت نہیں سکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی کے امیر کے انتخابات کیلئے جہاں پر بیلٹ پیپرز کی تقسیم بعد واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ایسے وقت میں جماعت اسلامی میں دو واضح گروپ بن گئے ہیں۔ ایک گروپ جو جماعت کو سیاسی بنیادوں پر آگے لے جانے کی خواہش رکھتا ہے اس گروپ کے بعض ذمہ داروں کے مطابق سابق امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) کے دور میں جماعت اسلامی سیاسی طور پر بہتر پوزیشن میں تھی اور مشرف دور میں یہ ملک کی تیسری بڑی جماعت بھی بن گئی تھی۔ تاہم ایم ایم اے کی صورت میں جماعت اسلامی اور مذہبی قوتوں کو سرحد، اور بلوچستان میں بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی تھی لیکن موجود ہ امیر منور حسن کی طرف سے ایم ایم اے پر اعتراضات اور ایم ایم اے کو بحال نہ کرنے کے فیصلے سے جماعت اسلامی کو سیاسی نقصان پہنچا ہے۔ سیاسی گروپ سمجھتا ہے کہ جماعت اسلامی جو 70 سال کی سیاسی تاریخ رکھتی ہے وہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف سے بھی پیچھے رہ گئی جبکہ پنجاب ، سندھ ، اور بلوچستان میں وہ سیاسی طور پر گزشتہ الیکشن میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ تاہم اس سیاسی گروپ کے مطابق سابق امیر قاضی حسین احمد کے دور میں جماعت سیاسی طور پر متحرک تھی اسکے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں سے بہتر تعلقات سے ان کے اوپر اثر تھا لیکن اب جماعت سیاسی طور پر بہتر پوزیشن کی بجائے کم ہوئی ہے۔ اس گروپ میں امیر کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا سیاسی گروپ دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک کے مطابق جماعت اسلامی نے گزشتہ الیکشن میں صوبہ سرحد میں سیاسی طور پر بھی پرفارم کرکے اچھی کامیابی حاصل کی جس کیلئے سراج الحق مستقبل میں جماعت کو دیگر صوبوں میں بھی بہتر سیاسی تنظیم کے طور پر متحرک کرکے کامیاب کر سکتے ہیں کیونکہ سرحد میں جماعت کی سیاسی کامیابی انکی کامیابی تھی جبکہ دوسرے سیاسی گروپ کی رائے یہ ہے کہ لیاقت بلوچ ایم ایم اے کی بحالی ، سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں وہ سیاسی طور پر متحرک ہیں اسلئے امیر کے طور پر وہ جماعت کو بہتر طریقہ سے سیاسی طور پر آگے لے جاسکتے ہیں جبکہ بعض حلقوں میں ان پر ذاتی کچھ اعتراضات ہیں۔ اسی طرح جماعت کو طالبان ، قدامت پسندی کو سپورٹ کرنیوالا گروپ وہ موجودہ امیر منور حسن کو سپورٹ کر رہا ہے۔ انکا خیال ہے کہ جو بھی ہو وقتی طور پر سیاسی کامیابی نہیں ملی ہے لیکن واضح پالیسی اختیار کرنے سے جماعت پر سیاسی طور پر دور رس اثرات آئیں گے تاہم اس وقت چونکہ طالبان کے حوالے سے بعض طاقتیں چاہتی ہیں ان پر سختی کی جائے اسلئے پاکستان کے اندر ماحول بنایا جارہا ہے اسلئے بات چیت سے پاکستان میں دیر پا امن جلد بحال ہو سکتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق جماعت اسلامی کو مسقبل میں بہتر سیاسی پوزیشن ملے گی۔