تاریخی فیصلہ یا تاریک فیصلہ

بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔گزشتہ روز اپوزیشن کے اجلاس کے بعد حکومت کے سامنے کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ کسی نے میرے کہے پر عمل کیا ہے لیکن ہوا وہی جس کا میں نے مشورہ دیا تھا کہ نئی سینیٹ میںپیپلز پارٹی کے پاس سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کا اعزاز موجود ہے ، اس لئے پہلے اسے موقع دیا جائے کہ وہ اپنے امید وار کو کامیاب کرانے کے لئے کوشش کرے اورا س کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ حکومت چاہتی تو بہت گند ڈال سکتی تھی۔مگر وزیر اعظم اور ان کے ساتھی داد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے جمہوری انداز کو اپنایا۔یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم نے میثاق جمہوریت کی لاج رکھی ہو ۔زرداری کے پانچ سال بھی اسی مک مکا کے طفیل مکمل ہوئے۔اب بھی اسی مک مکا کا جھنڈا لہرارہا ہے۔ہر چند ڈاکٹر قادری ا ور عمران خاںنے دھرنے کے ذریعے کوشش بہت کی کہ اس مک مکا کے کھیل کو تلپٹ کیا جائے مگر ان کا ایجنڈہ اس قدر وسیع ہوتا چلا گیا کہ بڑے بے آبرو ہو کر تری محفل سے ہم نکلے کی تصویر بن گئے۔عمران خان تو پھر بھی ایک عدد بیوی لانے میں کامیاب ہو گئے مگر قادری صاحب کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔وہ آئے تو تھے ایک کروڑ نمازیوں کی امامت کرانے مگر ان کی ترجیح جنازے پڑھانے کی ہو گئی ا ور ڈی چوک میں قبریں کھودی جانے لگیں۔ان قبروںمیں انقلاب کی خواہشات کالاشہ گل سڑ رہا ہے۔
سینیٹ کے الیکشن کے فائنل رائونڈ نے ظاہر کر دیا ہے کہ مک مکا کو قرآن و حدیث کا درجہ حاصل ہے۔ گو زرداری نے کہا تھا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور میاں شہباز شریف بھی کہتے رہے کہ زرداری کوسڑکوں پر گھسیٹیں گے اور بھرے چوک میں پھانسی پر لٹکائیں گے اور شاید یہ بھی کہا کہ لوٹی ہوئی دولت بھی بیرون ملک سے منگوائیں گے مگر یہ سب مخول شخول تھا کارکنوں کی دل پشوری کے لئے۔
حکومت کو ایک اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایک رات چپکے سے صدارتی آرڈی ننس جاری ہو ا جس سے فاٹا میں سینیٹ کے لئے طریق انتخاب بدل دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ اصولی طور پر یہ ایک اچھا فیصلہ تھا لیکن اسے رات کے اندھیرے میں نافذ کرنے سے فاٹا کے وفاقی علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، ایک طرف یہ علاقہ دہشت گردوں کی زد میں ہے اور پاک فوج ان کے خلاف ایک مشکل آپریشن کر رہی ہے ، دوسری طرف حکومت نے سیاسی دنگل کا بگل بجا دیا۔فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے اس پر سخت رد عمل کاا ظہار کیا، اب حکومت کے پاس کھیلنے کو کوئی پتے باقی نہیں رہے، اس لئے فاٹا میں الیکشن کس طرح ہوتا ہے ، جائے بھاڑ میں جیسے مرضی ہوتا رہے۔سن رہے ہیں کہ یہ آرڈی ننس واپس لیا جارہا ہے، ان سطور کی اشاعت کے ساتھ یہ فیصلہ سامنے آ سکتا ہے اورا س پر حکومت کو ہر طرف سے داد دی جائے گی مگر مجھے اس حکومت سے دلی ہمدردی ہے۔بے چار ی اپنی مرضی چلانے سے قاصر ہے۔
میاں رضا ربانی کی ہر کوئی تعریف کر رہا ہے خاص طور پر آئینی ترمیم کے لئے انہوںنے انتھک کوشش کی۔اور اس کی داد بھی پائی۔مگر وہ آخری آئینی ترمیم پر پھسل گئے۔بلکہ دھڑام سے گر گئے، رضا ربانی ایک منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جب پوری پارلیمنٹ اتفاق رائے کا مظاہرہ کر رہی ہے اوراس پر ان کی کوئی ذاتی رائے تھی بھی تو انہیں اس کا اظہار اپنی پارٹی قیادت کے سامنے کرنا چاہئے تھا۔بلک اصولی طور پر انہیں پارلیمنٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ جمہوری اور پارلیمانی رویہ برقرار نہ رکھ سکے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مزاج مکمل طور پر جمہوری اور پارلیمانی نظام کو ہضم نہیں کر پا رہا۔انہوں نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ یہ آئینی ترمیم پاکستان کی سیاسی پارلیمانی تاریخ کاسیاہ ترین اقدام ہے۔اب یہ شخص ملک کے ایوان بالا کے چیئر مین کے لئے متفقہ طور پر نامزد کر دیا گیا ہے۔اس نے اس دستور کی بالا دستی کا حلف لینا ہے جس کے ایک حصے سے اسے صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ وہ اسے آئین اور جمہوریت کے بھی منافی سمجھتا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ اس چیئر مین سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور کردہ آئین کی بالا دستی کا فریضہ انجام دے پائے گا۔میری رائے میں میاں رضا ربانی کو اس وقت تک چیئر مین سینیٹ کے منصب کا حلف نہیںلینا چاہئے جب تک آخری آئینی ترمیم کوانکی سوچ کے مطابق ڈھال نہیں دیاجاتا۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ڈبل مائنڈڈ شخص اس دستور کے ساتھ کیسے نباہ کر سکتا ہے۔میرا سوال ہے کہ کیا میاں رضا ربانی کو خفیہ طور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو گا آئین سے فوجی عدالتوںکے قیام کی شق کو حذف کر دیا جائے گا یا یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں امید ہو کہ عدلیہ اس شق کو حذف کر دے گی اور میاں رضا ربانی کی طرف سے اٹھایا گیاملک کے سیاہ تریں اقدام والا اعتراض دریا برد کر دیا جائے گا۔مجھے اندیشہ ہے کہ فوجی عدالتوں پر اعتراض کرنے والے شخص کو ملک کے دوسرے بڑے آئینی عہدے کے لئے نامزد کرنا فوج کو ریڈ ریگ دکھانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ایک طرف قومی ایکشن پلان کو بڑھاوا دینے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف پھانسیوں کا سلسلہ اعلان کئے بغیر روک دیا گیا ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹادیا گیا ہے اور تیسری طرف فوجی عدالتوں کے قیام کو ملک کا سیاہ تریں دن کہنے والے شخص کو ریاست کے دوسرے بڑے منصب پر لانے کی تیاری ہے۔ میںنہیں کہتا کہ سیاستدان فوج کی بات ماننے کے مکلف ہیں ، وہ آزاد مرضی کے مالک ہیں مگر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوج کی سوچ اور عمل سے اختلاف کرنے کے باوصف وہ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام قبول کریں اور دہشت گرد اس ملک میں جو کھل کھیلیں ، اس کی ذمے داری بھی قبول کریں ۔ فوج تن تنہا اس فتنے کی سرکوبی نہیں کر سکتی۔ میاں رضا ربانی کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ حلف لینے سے پہلے قوم کو بتائیں کہ ان کے ذہن میں دہشت گرد ی کے خاتمے کا طریقہ کیا ہے۔یا وہ قوم کو دہشت گردوںکے رحم و کرم پر چھوڑنے کے حق میں ہیں۔آئین کی رو سے صدر مملکت ملک کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں اور صدر کی غیر حاضری میں چیئر مین سینیٹ اس منصب پر فائز ہو جاتا ہے۔تو فوج اور اس کا سپریم کمانڈر آپس میں کیسے چلیں گے۔
آیئے، ہم شرح صدر کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ قوم کو علم ہو جائے کہ سپریم کمانڈر کا ممکنہ طور پرمنصب سنبھالنے والا شخص بیس کروڑ عوام کی تقدیر کی حفاظت کیسے کرے گا۔ہم سینیٹ کے چیئر مین کے الیکشن کے فیصلے کو تاریخی قراردے رہے ہیں، خدا نخواستہ یہ تاریک فیصلہ نہ بن جائے۔اسے روشن فیصلہ بنانے کے لے میاںر ضا ربانی کو خود بعض سوالوںکا جواب دینا ہے۔اور عوام کے سامنے اپنا سینہ کھولنا ہے۔وہ متفقہ آئینی ترمیم کے خلاف اپنے ریمارکس کو یا تو وا پس لیں یا پھر اپنی نامزدگی کے فیصلے کو قبول نہ فرمائیں ۔دونوں صورتوںمیں ان کے وقار میں مزید اضافہ ہو گا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن