8مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کے دن کے طور پر منایا جاتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔ جب آج کی ترقی یافتہ اقوام کی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے یہ حقوق کئی صدیوں میں حاصل کئے اور نبیؐ کی بعثت کے کئی سو سال بعد حاصل کئے جبکہ نبیؐ اور ان پر اترنے والا قرآن بہت پہلے عورتوں کو وہ مقام ،وہ عزت ، وہ رتبہ دے چکا تھا جو شاید آج بھی ان ماڈرن اقوام کی عورتوں کو حاصل نہیں۔ سب سے پہلے مرحلے پر تو عورت کے مقام کا تعین ہے کہ اس مرد و زن کی دنیا میںاس کی کیا حیثیت ہے۔ اس کی حیثیت کا تعین اُسی وقت ہوگیا تھا جب حضرت حوّا کی تخلیق بطور حضرت آدمؑ کی شریک سفر کی گئی جنت میں بھی آدم کو حوا کی ہمراہی کی ضرورت تھی۔ اصل میں یہی مرد و زن کا خوبصورت رشتہ ہے جو سب سے پہلے تخلیق پایا۔ اسکے بعد باقی رشتے بنتے چلے گئے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا قوام قرار دیا جیساکہ سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مرد عورتوںپر قوام ہیں۔ اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت کر دی کہ یہ فضیلت اس لئے دی گئی ہے کیونکہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں یعنی ان کا یہ فرض ہے کہ وہ معاشی ذمہ داریاں اٹھائیںلہٰذا جب وہ کمانے والا ہوگا گھر کا یا خاندان کا نظام اسکے کمائے ہوئے پیسے سے چلے گا تو اس کا درجہ بھی زیادہ ہوگا۔ جیساکہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، عورتوں کیلئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ یہ بات بہت پُرحکمت ہے کہ صرف ایک درجہ بلند کرکے مرد کو زیادہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ یہاں پر بھی عورت فائدے میں رہی کہ اس پر ڈائریکٹ کسی قسم کی ذمہ داری اسکے علاوہ نہیں ڈالی گئی کہ وہ مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں انکے حقوق کی حفاظت کرتی رہیں اور صالح اواطاعت شعار عورت کی نشانی بتائی گئی اب جو مرد اپنی بیویوں سے یہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر بھی ان کیلئے ہر طرح سے مدد گار ہوں تو پھر انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس بنا پر انہیں عورت پر صرف ایک درجہ فضلیت دی گئی ہے وہ کچھ کمپر مائزنگ ہو گیا ہے -خیر ہم دوبارہ قرآن کی طرف آتے ہیں قرآن جس طرح عورت کی تصویر کشی کرتا ہے وہ عورت کا کردار زندگی میں متعین کرتا چلا جاتا ہے جب سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی ماں کا ذکر آتا ہے تو ہ ہمارے ہمارے سامنے ایسی عورت کے روپ میں آئی ہے جس کا ایمان اور اپنے رب کیلئے محبت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے کام کیلئے وقف کر دیتی ہے اتبا بڑا فصیلہ ایک عور ت سے کروایا گیا پھر آگے سے وہ عورت جو اس کی بیٹی تھی جس کو اس شیطان کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں دیا تھا اس قدر مضبوط اور متوکل شخصیت کے روپے میں ابھرتی ہے کہ حضرت زکریا جیسے پیغمبر اس سے پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کھانا تمہارے پاس محراب میں کہاں سے آتا ہے اور اس کا جواب پا کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ میرے پاس اللہ کے پاس سے آتا ہے پھر اس لڑکی کو فرشتے خوشخبری دیتے ہے کہ اے مریم اللہ نے تجھے برگزیدہ کہا اور پاکیزگی عطاء کی کیا شان ہے اس عورت کو جس کو اللہ نے اتنے بڑے کام کیلئے چن لیا آپ کے ہاں حضرت یحیی ؑکی ولادت ہوئی جبکہ آپ کو کسی بشر نے کبھی نہیں چھوا تھا یہ اللہ کی بہت بڑا معجزہ تھا جس کے اظہار کیلئے آپکا انتخاب کیا گیا-اسکے بعد فرعون کی بیوی کا جو ذکر قرآن میں آیا ہے وہ عورت کی عظمت کا مزید اظہار ہے کس طرح وہ پیار محبت سے حضرت موسی ؑکی پرورش کرتی ہے کس طرح وہ دنیا وی شان و شوکت سے منہ موڑ کر اللہ تعالی سے جنت میںاپنے لئے رہے گھر بنانے کی آرزو کا اظہارکرتی ہے پھر اگر ہم حج کے ارکان کی طرف آتے ہیں تو مفادعامہ کی سعی کو حج کے ارکان میں اس لئے شامل کر دیا گیا یہ ایک ماں کی سعی تھی اپنی اولاد کی جان بچانے کیلئے پانی کی تلاش میں اللہ کو ماں کی یہ سعی اتنی پسند آئی کہ وہ حج کا مستقل رکن قرار پائی -پھر جب معاشرے میں عورت کا مقام متعین کرنے کا وقت آیا تو اس کو اس قدر رتبہ دیا گیا اس قدر اسکے ناز اور لاڈ اٹھائے گئے کہ کہا گیا کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھو اپنی نظروں سے بھی اسے ہراساں کرنے کی کوشش نہ کرو۔ آپکو ڈھانپ کر باہر نکلنا اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تا کہ اللہ تعالی تمہیں جو مقام دینے جا رہے ہیں تو اپنے آپ کو اس کی اہل ثابت کر سکو اور خبر دار اس طرح کی پاک دامن عورتوں کی طرف نگاہ اٹھائی دور کی بات اگر تم ان پر بغیر چار گواہوں کے کوئی بہتان لگاتے ہو تو پھر اس کوڑے کھانے کیلئے تیار رہوں اگر یہ عورت شادی کرتی ہے تو اسکی عزت افزائی کی گئی ہے کہ مرد اس کو مہرادا کر یگا او راس کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی یہ ڈھیر مال بھی ہو تو تم کسی بھی صورت ان سے واپس لینے کے مجاز نہیں یہاں تک کہ تم انہیں چھوڑنے کا فیصلہ بھی کرلو تب بھی نہیں ،پھر عورت کا وراثت میں حصہ مقرر کر دیا گیا یہ اسلام ہی ہے جو عورت کے ہر رول میں اس کو جائید اد میں مناسب حصہ دے رہا ہے -یہ سب عورت کو حقوق دیئے جا رہے ہیں اور فرائض کے معاملے میں اس قدر نرم رویہ رکھا گیا ہے کہ اگر ماں اپنے بچے کو دودھ بھی پلانا نہیں چاہتی تو باپ معاوضہ دیکر اپنے بچے کو کہیں اور سے دودھ پلانے کا ذمہ دار ہے۔ اب طلاق جیسے نا خوشگوار فیصلے کے موقع پر بھی مرد کو تلقین کی جا رہی ہے کہ عورت کو بھلے طریقے سے رخصت کرنا کچھ دے کر یہ تاکید سورہ بقرہ میں کی جار ہی ہے یعنی عورت کی ہر طرح سے دلجوئی کسی نہ عورت کو آدھی گواہی کے بارے میں بہت سننے میں آتا ہے -یہاں یہ بھی اللہ کی عورت کی لئے محبت اور نرمی کا پہلو نمایاں ہے کہ گواہی کی ذمہ داری کوئی چھوٹی سی بات ہے جو عورت جیسی نرم و نازک احساسات کی مالکہ کو نبھانا پڑے تو وہ اس کو بخوشی نبھا جاسکے لہذا عورت کیوں چاہتی ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے جو اسکی فطرت کیخلاف ہیں کیوں نہیں وہ اپنے رول کو اس کائنات میں پہچاتی اور اس بخوبی نبھاتی-