پاکستان‘ بھارت مذاکرات جب بھی بحال ہوئے مسئلہ کشمیر پر ضرور بات ہو گی: دفتر خارجہ

Mar 11, 2016

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+نیٹ نیوز+ایجنسیاں) دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر کافی پرانا مسئلہ ہے، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیری عوام کی حق خودارادیت کو سپورٹ کرتی ہیں۔ پاکستان بھارت مذاکرات میں مسئلہ کشمیر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرنے والے بیان کو خوش آمدید کہتے ہیں، کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول تک پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اصولی موقف برقرار رہے گا، پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسائیہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، بھارت کے ساتھ اعتماد سازی اور کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں، پاکستان افغانستان کے مسئلہ کا پرامن، سیاسی حل چاہتا ہے، پاکستان، امریکہ اور چین افغانستان اور طالبان کے درمیان افغان حکومت کی سربراہی میں مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت پاکستانی وفد سعودی عرب کی دعوت پر جنگی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کیلئے گیا ہے، پاکستان نے بھارت میں قید محمد عرفان تک قونصلر سے رسائی مانگی ہے جو ابھی تک فراہم نہیں کی گئی، مارشل آئی لینڈ سے پاکستان کے کوئی سفارتی تعلقات نہیں، مارشل آئی لینڈ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان ، بھارت اور برطانیہ کے خلاف دائر پٹیشن کے حوالے سے پاکستان نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے، معاملہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہاکہ پاکستان نے87 بھارتی قیدیوں کو جذبہ خیرسگالی کے طور پر رہا کیا ہے کیونکہ پاکستان انسانی قدروں کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور مستقبل میں جن قیدیوں کی قید کی مدت پوری ہو گی مزید رہائی دے گا۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر پرانا مسئلہ ہے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں کئی قرار دادیں موجود ہیں جو کشمیریوں کی حق خود ارادیت سپورٹ کرتی ہیں۔ پاکستان امریکہ کی جانب سے کشمیر کا متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے والے بیان کو خوش آمدید کرتا ہے، بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات بحال ہوں گے مسئلہ کشمیر پر ضرور بات ہو گی، بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور اعتماد سازی کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں، پاکستان تمام ہمسائیوں کے ساتھ بشمول بھارت کے اچھے تعلقات چاہتا ہے، دونوں ممالک میں عوامی سطح کے رابطہ، کلچر اور مذہبی ٹورزم کو فروغ دیا جا سکتا ہے، چار ملکی رابطہ ملک افغانستان حکومت اور طالبان کے مذاکرات افغانستان کی سربراہی میں مذاکرات کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے تنازعہ کا پر امن مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل چاہتا ہے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ ہے، دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ خطہ سمیت تمام دنیا کا مسئلہ ہے۔ ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران مسئلہ کشمیر پر اصولی مؤقف میں تبدیلی کا تاثر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ بے گناہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی ہتھکنڈوں کی مذمت کی ہے۔ اس مسئلے کو بین الاقوامی فورموں پر اٹھایا ہے۔ اب بھی پاکستان کشمیری عوام کے خلاف بھارتی فورسز کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ واضح رہے برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے حالیہ دورۂ پاکستان میں کہا تھا کہ پاکستان بھارت مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بات کی شرط نہ لگائی جائے۔ ہم پاکستان امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے اعلامیہ کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں مسئلہ کشمیر کو تنازعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے مسئلے کے حل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ ہم نے طالبان ترجمان کا ردعمل دیکھا ہے۔ چار ملکی میکنزم میں شامل تمام ملکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ ہمارا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کیلئے سیاسی طور پر مذاکراتی حل مؤثر اقدام ہے۔ یہ مقصد افغانوں کی سرپرستی میں مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے اپنے طور پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کیلئے جگہ کی پیشکش بھی کی تھی تاہم ابھی مذاکرات کی تاریخ کا تعین نہیں ہوا۔ سعودی قیادت میں قائم انسداد دہشت گردی کے اتحاد اور سعودی عرب میں فوجی مشقوں کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان ہی نہیں پورے خطے اور دنیا کا مسئلہ ہے چنانچہ جس بھی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کوشش ہو گی پاکستان اس کوشش کا حصہ بنے گا۔ سعودی عرب میں جاری فوجی مشقوں سے اسلامی دنیا کو درپیش دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دو روز پہلے ستاسی بھارتی قیدی رہا کئے ہیں جو بھی قیدی مدت پوری کر لے گا اسے رہا کر دیا جائے گا لیکن ابھی تک بھارت نے صرف چار پاکستانی رہا کئے ہیں۔ کھیل، ثقافت اور مذہبی سیاحت پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان روابط کے فروغ کا باعث ہیں لیکن ہندو انتہاپسند گروپوں کی جانب سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے خلاف شروع کی گئی مہم ان روابط پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستانی شائقین کو ویزے جاری کرنے سے انکار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ پاکستانی شائقین کو اگر ویزے جاری کرنے سے انکار کیا گیا ہے تو یہ معاملہ بھارتی حکومت کے سامنے اُٹھایا جائے گا۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) پاکستان نے عالمی عدالت انصاف پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بحرالکاہل کے ملک مارشل آئی لینڈ کی درخواست کی سماعت کرنے کی مجاز ہی نہیں کیونکہ یہ معاملہ عالمی عدالت کے اختیار سماعت سے باہر ہے۔ واضح رہے کہ مارشل آئی لینڈ نے پاکستان سمیت نو ایٹمی طاقتوں کے خلاف عدالت انصاف میں درخواست دائر کر رکھی ہے لیکن عدالت نے صرف پاکستان، بھارت اور برطانیہ سے اس ضمن میں جواب طلب کیا کیونکہ ان تینوں ملکوں نے ایسے معاہدوں کی توثیق کر رکھی ہے جن کے تحت یہ عدالت ان ملکوں سے متعلق بعض امور کی سماعت کر سکتی ہے۔ تاہم پاکستان کا ایٹمی پروگرام وہ معاملہ ہے جس پر پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کو سماعت کا اختیار نہیں دے رکھا۔ دفتر خارجہ کے مطابق اسی نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان نے عدالت انصاف میں اپنا تفصیلی جواب جمع کراتے ہوئے مارشل آئی لینڈ کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی ہے کیونکہ اس ملک نے ایسے معاملہ پر درخواست دائر کی ہے جو عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی پروگرام ملک کی سلامتی و دفاع سے متعلق پاکستان کا ایسا داخلی معاملہ ہے جسے عالمی عدالت انصاف سمیت کوئی بھی عدالت نہیں سن سکتی۔ پاکستان نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ مارشل آئی لینڈ کے ساتھ اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تنازعہ ہے نہ ہی کبھی مارشل آئی لینڈ کا کسی معاملہ پر پاکستان کے ساتھ کبھی کوئی رابطہ ہوا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات تک نہیں۔مارشل آئی لینڈ نے قطعی طور پر بلاجواز پاکستان کے خلاف بھی یہ درخواست دائر کی جس کی کوئی تک نہیں بنتی۔عالمی قوانین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مارشل آئی لینڈ کو پہلے عدالت کے اختیار سماعت سے متعلق پاکستان سے رابطہ کرنا چاہئے تھے تب اس پر واضح کیا جاتا یہ ہمارا ایٹمی پروگرام عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔پاکستان نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی عدم پھیلائو کا معاملہ ہر خطہ کی سلامتی کے حالات کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ایٹمی ہتھیاروں پر قدغن لگانی ہے تو اس معاملہ پر تمام فریقوں کو اعتماد میں لے کر درست طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

مزیدخبریں