اسلام آباد(سہیل عبدالناصر)حزب اسلامی افغانستان نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور غیر ملکی قابضین کے خلاف جدوجہد میں مصروف تحریک مزاحمت کے درمیان غیر مشروط مذاکرات ہونے چاہئیں۔ افغان طالبان بلا شبہ نمایاں قوت ہیں لیکن حزب اسلامی کی بھی شاندار تاریخ ہے اور حزب کی مئوثر شمولیت کے بغیر افغانستان میں قیام امن اور قومی مفاہمت کی کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔ حزب اسلامی کے سیاسی و سفارتی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر غیرت بہیر نے نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ امن عمل میں حزب اسلامی کی شمولیت کیلئے افغان صدر سے لے کر دیگر اعلیٰ حکام نے ہمارے ساتھ غیر رسمی رابطے کئے ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی باضابطہ دعوت موصول نہیں ہوئی۔ یہ دعوت ملنے کے بعد حزب اسلامی مذاکرات کیلئے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی لیکن افغان قوم کے دکھوں اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہماری یہ رائے ہے کہ مذاکرات کے کسی بھی فریق کو بات چیت کیلئے پیشگی شرائط عائد نہیں کرنی چاہئیں تاکہ مذاکراتی عمل ایک بار شروع ہو سکے اور افغان دستور و قابض فوجوں کے انخلاء سمیت تمام متنازعہ امور پر مذاکرات کے دوران بات کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اسلامی نے ہمیشہ افغان مسلہ کو پرامن ذرائع سے حل کرنے کی بھرپور حمائت کی اور اسی جذبہ کے تحت حزب کے اعلیٰ امریکی حکام افغان حکومتوں کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی بات چیت بھی ہوتی رہی اور طالبان کے ساتھ بھی روابط رہے۔ طالبان کے ساتھ روابط میں حزب نے ہمیشہ ملی جذبہ کے ساتھ پہل کی۔ ہم نے کبھی بات چیت کے درواے بند نہیں کئے۔ افغان گروپوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو ممکن بنانے کیلئے تشکیل دئے گئے پاکستان، افغانستان چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی میکنزم کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ حزب اسلامی اس کاوش کو مثبت انداز میں دیکھتی ہے تاہم ہماری خواہش تھی کہ کاش افغان ہی اس عمل کی خود قیادت کرتے کیونکہ افغان ایک دوسرے کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کی امنگوں اور خواہشات سے آگاہ ہیں۔ امریکہ اور چین کی اس عمل میں شمولیت کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ امریکہ بے شک سپر پاور ہے لیکن وہ افغانستان پر قابض بھی ہے چنانچہ افغان عوام کے نزدیک امریکہ ہی مشکوک رہے گا۔