ملک غلام مصطفی کھر کے دوبارہ منظر عام ا ٓنے پربہت خوشی ہوئی۔ خود ساختہ گوشہ نشینی اور وہ بھی کب تھے؟ ایک طویل سیاسی بیک گراﺅنڈ اور وہ بھی چوٹی کی لیڈر شپ۔ ایک وقت تھا جب ملک صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ بڑی تگ ودو کے بعد کہیں جا کے ٹائم ملتا تھا۔ ملک صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے رائٹ ھینڈ ہوتے تھے۔ گورنر کے عہدے پر براجمان رہے۔ ایک عام گورنر نہیں بلکہ ایک اعلیٰ پائے کے منتظم رہے۔ انہیں کے دور میں گورنر ہاﺅس کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے گئے تھے۔ ایک دفعہ پنجاب پولیس ہڑتال پر چلی گئی۔ ملک صاحب نے بڑے دبنگ انداز سے انٹری ڈالی اور ہڑتال ناکام ہو گئی۔ بعد میں وزیر اعلیٰ بنا دیے گئے۔ جو دور ان کا گورنری کا تھا وہ ایک یاد گار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک پیش رو ملک امیر محمد خان کو کاپی کیا۔ اچھی چیز کاپی کرنا کوئی اچھنبے والی بات نہیں۔ جب مو صو ف گورنر تھے تو اس وقت گو کہ سیاسی نظام پارلیمانی تھا، جس میں اختیارات وزیر اعلیٰ کے پا س ہوتے تھے، لیکن وزیراعلیٰ گورنر ملک غلام مصطفی کھر کے سامنے بونے محسوس ہوتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ پارٹی معاملات ہوتے یا نجی سب میں ملک صاحب کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ملک صاحب نے بہت جلد سیاست میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کر لیا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ان سے ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جو حکومت اور پارٹی لیڈر شپ کے لیے خفت کا سبب بنیں۔ حکومت سے الگ ہوئے لیکن جماعتی وابستگی بر قرار رہی۔
ملک صاحب ذو الفقار علی بھٹو کے مطابق بااعتماد نہیں رہے تھے ، با ر بار دھوکا، عقل مند کے لیے ایک دفعہ ڈسا جانا بھی کافی ہے۔ ملک میں جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا ءلگا دیا۔ حکومت کو بر طرف کر دیا۔ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو پس زنداں ڈال دیا گیا۔ ملک مصطفیٰ کھر واحد سیاسی شخصیت تھے گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ جنرل ضیاءسے مل گئے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کچھ ثبوت دینے کا وعدہ کیا اور خود ساختہ جلا وطنی پر لندن چلے گئے۔ وہاں بھٹو کے بیٹوں سے ملے۔ یہ بظاہر ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ ان کے وفادار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان جیل سے فرار کرانے کی منصوبہ بندی میں پیش پیش رہے تھے۔ اس وقت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو جنرل ضیاءکی قید میں تھیں۔ ٹیلی فون ٹیپ ہو رہے تھے اور ملک مصطفے کھر میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو کابے نظیر بھٹو سے رابطہ کروانے میں مصروف تھے۔ تمام گفتگو ریکارڈ ہو رہی تھی۔ اس طرح یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ بھٹو خاندان پر سختی اور بڑھ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں ملاقات کے دوران بے نظیربھٹوکو ملک غلام مصطفی کھر اور غلام مصطفیٰ جتوئی سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ دونوں نے اندرون خانہ مارشل لا ءحکومت سے ساز باز کر لی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے یہ بات گرہ سے باندھ لی۔بے نظیر بھٹو جیل سے رہا ہونے کے بعد لندن چلی گئیں۔ وہاں سے انہوں نے پارٹی کی تنظیم نو کی۔ ملک غلام مصطفی کھر اور غلام مصطفی جتوئی کو صوبائی صدارت سے الگ کر دیا۔ ان دونوں نے بڑا واویلا کیا۔ لیکن پلوں کے نیچے سے کافی پانی گذر گیا تھا۔ دونوں نے اپنی پارٹی بنا لی جس کا نام نیشنل پیپلزپارٹی رکھا۔اسی کی دہائی میں مصطفے کھر پاکستان واپس آ گئے۔ فیصل آباد ائیر پورٹ پر ان کو گرفتار کرلیا اور لاک اپ میں بند کردیا گیا۔ ان پر نام نہاد مقدمات چلائے گئے۔ 1988 ءمیںبے نظیر بھٹوالیکشن جیت گئیں۔ ان کو سادہ اکثریت کے ہوتے ہوئے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ پی پی پی سندھ میں سویپ کر گئی اور وہاں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ جن میں پیر پگاڑہ، غلام مصطفی جتوئی، ممتاز بھٹو اور الہی بخش سومرو وغیرہ شامل تھے۔ پنجاب میں پی پی پی کی پوزیشن ففٹی ففٹی رہی، البتہ ملک غلام مصطفی کھر دو سیٹوں سے جیت گئے۔ ان حلقوں میں سیاسی جماعتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں پر شخصیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ملک غلام مصطفی کھر ضمنی الیکشن میں غلا م مصطفی جتوئی کو لے آئے۔ ان کے مقابلے میں پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر میاں طارق گورمانی الیکشن ہار گئے۔ مصطفی جتوئی کو اپوزیشن کا پار لیمانی لیڈر بنا دیا گیا۔ (جاری ہے)
1992ءمیں بے نظیر بھٹو جب دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بنیں تو پی پی پی کی طرف سے وزیر بجلی و آبپاشی بنے۔ بے نظیر بھٹو کی بد گمانی ختم نہ ہو سکی اور نہ ہی ملک مصطفے کھر صاحب نے ان کو دل سے قبول کیا۔ اس کا فائدہ صرف اتنا ہوا کہ ضلع مظفر گڑھ میں کچھ نہ کچھ ترقیاتی کاموں کا پہیہ چل پڑا۔ ملک مصطفے کھر کے دو صاحبزادے ملک عبدالرحمان کھر اور بلال کھر صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔ ملک عبدالرحمان کھر کو صوبائی وزیر خوراک بنایا گیا تھا۔ جلد ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ اورملک بے نظیر بھٹوکے عین خدشات کے مطابق بے وفائی کر گئے اور نگران سیٹ اپ کا حصہ بن گئے اور پانی و بجلی کے وزیر بنادئیے گئے ۔اس دفعہ بے نظیربھٹو کے ساتھ پھر دھوکہ ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو نے ان کو صدر بنایا تھا اور اسی نے ہی حکومت ختم کر دی۔ بے نظیر بھٹو کو اس موقع پر حضرت علی ؓ کا یہ قول دھراتے ہوئے سنا گیا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو ۔ تب بے نظیر بھٹو نے کہا تھاکہ پی پی پی پر جیسا بھی برے سے برا وقت کیوں نہ آئے، ملک غلام مصطفی کھر اب ان کے لیے،، نو مور ،،۔ دوبارہ الیکشن ہوئے جس میں پی پی پی ہار گئی۔ بے نظیر بھٹو اب اپوزیشن لیڈر بن گئیں۔ حکومت نے ان پر اوران کے شوہر پر بے شمار مقدمات قائم کیے۔ آصف علی زرداری کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے ملک سے باہر چلی گئیں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کردیا گیا، ان پر مقدمات بنے اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ سعودی عرب کی سفارش پر میاں نواز شریف کو ملک بدر کر دیا گیا۔
2002 ءمیں الیکشن ہوئے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن اپنے لیڈرز کے بغیر الیکشن لڑے۔ مسلم لیگ ق کے پاس سادہ اکثریت تھی۔ پی پی پی کے ممبران توڑ لیے اور ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ اس الیکشن میں ملک غلام مصطفی کھر تو ہار گئے لیکن سر دار فاروق خان ملت پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ سردار صاحب بھی حکومت کے اتحادی بن گئے اور حکومت میں شامل ہو گئے۔
2008ءکے الیکشن میں بھی ملک غلام مصطفی کھر اپنے بیٹوں سمیت ہار گئے۔ درمیان میں جمشید دستی نے استفعیٰ دے دیا اور دوبارہ الیکشن لڑا ۔ اس دفعہ ان کا مقابلہ ملک غلام مصطفی نے کیا اور بری طرح ہار گئے۔ پی پی پی کی حکومت نے یہ پانچ سال پورے کیے ۔ لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمپین کے دوران بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔
ملک غلام مصطفی کھر شکار کے بہت شوقین ہیں اور بہت بڑی شکار گاہیں قائم کر رکھی ہیں ۔ بہت بڑی زمین کے مالک ہیں،ان کی زمین مظفر گڑھ ، نارووال، شکر گڑھ او ر لاہور انڈین بارڈر کے قریب ہے۔ لاہور میں بھی بہت بڑے بنگلوں کے مالک ہیں۔ غالباََ 2008ءسے علامہ طاہرالقادری کی جماعت سے منسلک ہیں۔ ان کے احتجاجی دھرنوں میں دکھائی دیتے رہے، چاہے وہ پی پی پی کی حکومت کے دوران تھے یا میاں نوازشریف کے دور حکومت میں ۔ کبھی کبھار ان کے بیانات اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ لگتا ہے اب ان کا طاہرالقادری کی جماعت سے دل بھر گیا ہے۔ ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف جھکاﺅ کے آثار معلوم ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ ان کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یا نہیں؟ البتہ حلقہ میں پی ٹی آئی کے لوگ بہت بڑے پیمانے پر ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی نجی زندگی کے متعلق بڑے بھونڈے انداز میں بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ ان کی نجی زندگی کو ڈسکس کرنا غلط بات ہے۔ باقی رہا ان کا سیاست میں آنا تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ انہوں نے علاقے کی خوب خدمت کی ہوئی ہے۔ ایک فقرہ یہ ہر تقریر میں بولتے تھے کہ جب تک دھوتی اور پگڑی والے لوگ زندہ ہیں مجھے کوئی نہیں ہرا سکتا۔ سچ پوچھیں ! علاقے کے لوگوں نے بھی ا ن کا مان رکھا۔ ان کو شیر پنجاب کا خطاب بھی حلقے کے عوام نے ہی دیا اور بڑے مارجن سے الیکشن جتواتے رہے ہیں۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب لوگ نظر انداز کیے جانے لگے۔ ملک صاحب زیادہ وقت اسلام آباد اور غیرملک رہنے لگے۔ پیچھے بیٹے ا وربھائی ہوتے تھے۔ انہوں نے حلقے کی عوام پر کوئی توجہ نہ دی۔ ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سسٹم میں کچھ نئے لوگ شامل ہو گئے اور وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب موجودہ صورت حال میں ان کا اور ان کی ٹیم کا لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میںبڑا طویل وقت درکار ہو گا۔