فرائیڈ کے نظرئیے نے تہلکہ مچا دیا کہ خواب، خیال اور سوچ اس معاشرے کی ریاست کی معیشت پر منحصر ہوتے ہیں۔ ریاست جس قدر خوف میں جکڑی ہو گی اسی قدر عوام کی سوچ پر بھی اس کے سائے پڑتے نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم فرائیڈ کے نظریات کو اپنی ریاست پر لاگو کریں تو عدم تحفظ، بیروزگاری، بے یقینی کی صورتحال آج کے انسان کو اس پاتال کی طرف دھکیل رہی ہے کہ جہاں بے بسی اور بے کسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک لومڑی بد حواسی کے عالم میں بھاگی جا رہی تھی کسی نے اس سے پوچھا کہ ”تیرے ساتھ کیا معاملہ ہے جو تُو اتنی بد حواس ہے“۔ اس نے کہا کہ ”میں نے سنا ہے کہ اونٹوں کو بیگار میں پکڑا جا رہا ہے۔“ کسی نے سوال کیا ”تمہارا اور اونٹ کا کیا مقابلہ“ اس نے کہا کہ ”اگر کوئی دشمنی میں یہ کہہ دے کہ میں اونٹ ہوں تو میرا کیا ہو گا“۔ جب اس قسم کی صورتحال سوسائٹی پر لاگو ہو جائے تو صرف اخلاقی اقدار اور اندر کی روشنی ہی باہر کے پھیلے ہوئے اندھیرے کو کم کر سکتی ہے۔ اس خیال کو ڈاکٹر سہیل احمد خان نے ”روشنی کا سفر“ قرار دیا ہے۔ وہ ماہر نفسیات زونگ کے اس نظریہ سے متفق ہیں کہ بعض اوقات جب اندر کی روشنی پورے وجود کو روشن کر دیتی ہے تو خواب بھی روشن اور الہام کا مظہر ہو جاتے ہیں اور درستگی اور قوت ایمان کی طرف لے آتے ہیں۔ اندر کا ڈر اور خوف انسان کو عظیم شکست کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک تاریخی واقعہ میرے ذہن کے پردوں پر جلوہ گر ہے۔ محمود غزنوی جب اپنی افواج کے ساتھ سومنات پر حملے کے لئے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ مندر کے اندر بت ”شیوجی“ بغیر کسی سہارے کے فضا میں معلق ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جب تک یہ بت فضا میں معلق رہے گا کوئی بھی انہیں شکست سے دوچار نہیں کر سکے گا۔ محمود غزنوی اور اس کے سپاہی تھوڑے سے حیران ہوئے۔ پھر محمود غزنوی نے کسی سپاہی سے کہا کہ تلوار کو چاروں جانب گھمائے۔ جب اس نے ایسا ہی کیا تو تلوار کا رخ چھت کی جانب آ کر گیا۔ محمود غزنوی نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ چھت کو اکھاڑا جائے۔ جب چھت کو اکھاڑا گیا تو بہت سا مقناطیس چھت کی تہہ سے نکلا اور بت دھڑام سے نیچے آ گرا۔ ضعیف الاعتقاد لوگوں کے حوصلے پست ہو گئے اور سومنات پر محمود غزنوی کا قبضہ ہو گیا۔ ہم نے اپنی ذات میں خودغرضی منافقت‘ نفسانفسی، ذاتی مفادات اور اس قسم کے سینکڑوں بت پالے ہوئے ہیں۔ جن کی مسماری ناگزیر ہے۔ تب کہیں جا کر ہم اپنے قلوب پر فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ ہارے ہوئے انسان کے مقدر میں منزل نہیں ہوتی۔ لیکن پر عزم اور با حوصلہ شخص کا ہر قدم ہی منزل بن جاتا ہے۔ اب ہمارے لئے یہ معمہ حل کرنا اتنا آسان ہو جاتا ہے۔ ہمارا اڑسٹھ سالوں کا مستحکم ریاست کا خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ایک مرتبہ جلال الدین خلجی نے اپنے ایک وزیر سے پوچھا کہ بیت المال پر میرا اور میرے بچوں کا کتنا حق ہے۔ وزیر نے کہا جتنا عام آدمی کا یا اس سے بھی کم۔ جلال الدین خلجی کو شدید غصہ آیا اور اس نے وزیر کو دربار چھوڑ دینے کا حکم دیا اور کل حاضر ہونے کو کہا۔ وزیر ساری رات خوفزدہ رہا کہ صبح اس کی خیر نہیں۔ صبح جب وہ دربار میں داخل ہوا تو بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ شرعی اور غیر شرعی کیا ہے تم نے حق بات کی ہے۔ بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ جب تک ریاست متوازن اصولوں پر چلتی رہتی ہے۔ ڈر، خوف ، حُزن سے دور رہتی ہے۔ لیکن جب توازن ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہی صورتحال ہو جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کو اس کے وزیر نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی ، غربت، بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ اس کا حل کیا ہے۔ لوگ اپنے حال پر رو رہے ہیں۔
بادشانہ نے مسکرا کر کہا۔ ”اس کا بہترین حل ہے“ ”وہ کیا“ وزیر نے پوچھا جو مہنگائی کا رونا روئے اسے ختم کر دو۔ مہنگائی خود بخود ختم ہو جائے گی۔اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کر معاشرے میں مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے عفریت کو ختم کرتے ہیں۔
”خوف میں جکڑی ریاست“
Mar 11, 2017