عروج ندیم بٹ
ہر سال مارچ کے دوسری جمعرات کو ورلڈ کڈنی ڈے منایا جاتا ہے۔ 2006ءمیں قائم ورلڈ کڈنی ڈے کا مقصد ایک فرد کی مجموعی صحت کے لئے گردوں کی اہمیت کے بارے میں شعور بلند کرنا اور دنیا بھر میں گردوں کی بیماری اور اس سے متعلقہ صحت کے مسائل کے اثرات کو کم کرنا ہے۔ گردے انسانی جسم کے اہم جزو ہیں۔ یہ خون کو صاف رکھنے کے ساتھ کیمیائی طور پر خون کو متوازن رکھتے ہیں۔ گردے بیج کی شکل کے ہوتے ہیں اور ان کا سائز تقریباً مٹھی کے برابر ہوتاس ہے۔ گردے کمر میں دائیں اور بائیں جانب گیارہویں پسلی کے نیچے ہوتے ہیں۔ تندرستی کی حالت میں گردہ تقریباً 11 سم لمبا، 5 سے 7 سم چوڑا اور 2.5 سم موٹا ہوتا ہے۔ گردے ہر روز انسانی جسم میں 200 ملی میٹر خون اور 2 ملی لیٹر گندے اجزاءاور زائد پانی کا اخراج کرتے ہیں جو یورین کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ اگر گردے بروقت غیرضروری اجزاءجسم سے خارج نہ کریں تو جسم کے اندرونی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور جسم میں بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ ٹانگوں اور ٹخنوں میں سوجن، تھکاوٹ، کم بھوک، ہائی بلڈپریشر اور یورین میں خون کی موجودگی گردے کے مسائل کی علامات ہیں۔ اس کے علاوہ ذیابیطس گردوں کے فیل ہونے کی اہم وجہ ہے۔ ذیابیطس کے مریض عموماً 10 سال سے 20 سال کی مدت کے بعد گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خون میں شوگر کے نامناسب کنٹرول کے باعث خون کی نالیوں میں تنگی آنا شروع ہو جاتی ہے اور جہاں پر نالیاں بہت چھوٹی ہیں جیسے آنکھ، گردہ، دماغ اور دل وغیرہ وہاں خون کی مقدار پہنچ نہیں پاتی اور وہ عضو اپنا کام ٹھیک سے سرانجام نہیں دے پاتے ہیں۔ عموماً پہلے آنکھ کی بینائی ضائع ہوتی ہے۔ اس کے بعد گردے اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں 50 فیصد سے زائد مریض جو ڈائےلسز (Dialysis) کرواتے ہیں اُن کے گردے شوگر کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔ اس لئے شوگر کے مریضوں کو اپنی شوگر بہت مناسب حد تک کنٹرول میں رکھنی چاہیے تاکہ اعضائے رئیسہ اس وجہ سے خراب نہ ہوں۔ ہائی بلڈپریشر کی زیادتی کی وجہ سے بھی گردے خراب ہو جاتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں 15 سے 20 فیصد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ ہائی بلڈپریشر گردوں کے فیل ہونے کے ساتھ ساتھ دل کے دورہ اور فالج کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس لئے بلڈپریشر کو کنٹرول میں رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ہر فرد کو کم از کم چھ ماہ میں ایک بار بلڈپریشر چیک کروانا چاہیے۔ موسم گرما میں جسم میں پانی کم ہو جانے کی وجہ سے گردوں میں پتھری بن جاتی ہے جو یورین کے اخراج میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور گردوں میں زخم کر دیتی ہے جس سے گردے فیل ہو سکتے ہیں۔ گردے کے فیل ہونے کا علاج اس کی اقسام اور سٹیج کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اگر 50 فیصد GFR ہو تو مریض کو احتیاطی علاج پر رکھا جاتا ہے۔ اگر مریض کا GFR 10% سے کم ہو جاتا ہے تو لازمی خون کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔