فرزانہ چودھری
یوں تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے جسم میں تمام اعضاءکی اپنی اہمیت ہے لیکن گردے جن کو کچھ لوگ جسمانی اکاﺅنٹنٹ بھی کہتے ہیں، کی خاص اہمیت ہے۔ یہ نہ صرف انسان کی کیمسٹری کو نارمل رکھتے بلکہ جسم میں بننے والے فاسد مادوں کا جسم سے اخراج کرتے ہیں۔
گردے فیل ہونے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے زیادہ ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر، گردے کی سوزش، گردے کی پتھریاں، درد ختم کرنے والی دوائیاں اور حکیم کی دوائیاں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دسویں شخص کو کسی نہ کسی طرح گردے کی بیماری ہے اور ہر دس لاکھ میں سے سو اشخاص کے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔
جسم میں پیدا ہونے والے فاسد مادے اخراج نہ ہونے کی وجہ سے جسم میں ہی جمع ہو جاتے ہیں۔ ان فاسد مادوں کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کی نمکیات بھی اپنے مقررہ حدود میں نہیں رہتی۔ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ فاسد مادوں کے جمع ہونے اور نمکیات اور پانی کا اپنے مقررہ حدود میں نہ ہونے سے ابتدائی طور پر تو مریض کو بھوک کی کمی، تھکاوٹ اور متلی جیسی شکایات ہوتی ہیں لیکن آگے چل کر مریض کے سانس لینے میں دشواری، غنودگی اور بیہوشی بھی ہو جاتی ہے۔
شےخ زےد ہسپتال شعبہ نےفرالوجی کے سربراہ ماہر امراض گردہ پروفےسر ڈاکٹر وقار احمد نے ورلڈ کڈنی ڈے کے موقع پر بتاےا ”گردے فیل ہونے کی صورت میں یا تو dialysis کروائی جاتی ہے یا پھر گردے کی پیوندکاری کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ڈائےلسزکے لئے مریض کا خون ایک مشین میں سے گزارہ جاتا ہے جو کہ خون میں موجود فاسد مادوں اور نمکیات کو جسم سے نکال دیتی ہے لیکن گردوں کے باقی افعال مثلاً ہڈیوں کے بنانے اور خون بنانے میں مدد صرف ڈائےلسز عموماً ہفتے میں تین دفعہ کرواتی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں مختلف وجوہات کی بناءپر جن میں ایک وجہ ڈائےلسز کے اخراجات بھی ہیں، لوگ ہفتے میں ایک سے دو دفعہ ہی ڈائےلسز کروا پاتے ہیں۔ ہفتے میں تین دفعہ بھی ڈائےلسز کرنے سے نارمل گردوں کا تقریباً 15 فیصد کے برابر فاسد مادے جسم سے خارج ہوتے ہیں۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب ایک یا دو دفعہ یہ کیا جائے تو مریض کو کتنا فائدہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈائےلسز کے مریض کی صحت مغربی ملکوں کے مریضوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہوتی ہے۔ ہفتے میں دو سے تین دفعہ ڈائےلسز سنٹر جانا بذات خود نہ صرف مریض کیلئے بلکہ اس کی فیملی کیلئے بھی ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو خدانخواستہ اس تکلیف میں سے گزر چکا ہو۔ ہمارے ملک میں ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہےپاٹائٹس کا پھیلانا بھی ہے۔ گردے کے مریض جو کہ ڈائےلسز پر ہوں ان کو ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ وہ ہےپاٹائٹس کا شکار نہ ہو جائیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سو مریضوں میں سے تےس سے چالےس مریضڈائےلسز کرواتے ہوئے ایک سال میں ہےپاٹائٹس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ڈائےلسز کے مریض نہ صرف جنسی طور پر بالکل کمزور ہوتے ہیں بلکہ وہ بچے بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ گردہ فیل ہونے والے مریصوں کیلئے دوسرا علاج گردے کی پیوندکاری ہے۔ کامیاب پیوندکاری کے بعد گردے کے تقریباً تمام افعال بحال ہو جاتے ہیں اور وہ عام گردے کی طرح سو فیصد کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی اور خون بنانے کیلئے علیحدہ سے دوائی بھی نہیں لینی پڑتی۔ مریض جنسی طور پر نارمل اور عموماً بچے بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ڈائےلسز والے مریضوں کی طرح نہ تو ان کو ہفتے میں دو سے تین بار اپنے کسی عزیز کے ساتھ 4-5 گھنٹوں کیلئے ڈائےلسزسنٹر جانا پڑتا ہے اور نہ ہی انہیں ہر لمحے ہپاٹائٹس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ گردہ پیوندکاری کے بعد مریض اپنے کاروبار اور نوکری کی طرف واپس رجوع کر لیتے ہیں ۔ مندرجہ بالا تمام وجوہات کی بناءپر کم از کم ہمارے ملک میںڈائےلسز اور گردے کی پیوندکاری کا کوئی مقابلہ ہی نہیں اور ہر اُس گردے کے مریض کو پیوندکاری کی طرف جانا چاہیے جو ےہ علاج کروا سکتا ہو۔ گردہ دینے والے اشخاص تین طرح کے ہو سکتے ہیں۔ پہلی ترجیح مریض کے قریبی یا دور کے رشتے دار ہو سکتے ہیں۔ دوسرا گروپ ان اشخاص پر مشتمل ہے جن کا کسی ایکسیڈنٹ یا بیماری کی وجہ سے برےن ڈےتھ کی تشخیص کر دی جائے اور ان کے لواحقین کی اجازت سے ان کے مختلف اعضاءنکال لئے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں 90,80 فیصد گردے کی پیوندکاری میں انہی Brain Death لوگوں کا گردہ لگایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی 2007ءمین ایک قانون بنا کر برےن ڈےتھ سے اعضاءلینے کی اجازت دی گئی لیکن کئی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں ابھی تک برےن ڈےتھ سے گردے اور دوسرے اعضاءکا عطیہ لینے کی روایات پروان نہیں چڑھ سکی اور انتہائی کوشش کے باوجود 2007ءسے ابھی تک بعداز مرگ دو گردوں کی پیوندکاری ہی ممکن ہو سکی ہے۔ اگر مریض کا کوئی قریبی عزیز گردہ عطیہ کیلئے موزوں نہ ہو اور نہ ہی ہمارے ملک میں بعداز مرگ گردے کی روایت پروان چڑھ سکی ہو تو ایسے حالات میں 2007ءکا قانون بھی فیملی سے باہر گردے لینے کی اجازت دیتا ہے اور ماضی قریب تک کئی ایسے مریض جن کی فیملی میں کوئی بھی موزوں شخص گردہ دینے کیلئے دستیاب نہ تھا، وہ انسانی اعضاءکی پےوندکاری کے اےکٹ سے اجازت لینے کے بعد اپنے زندہ رہنے کا حق استعمال کرتے ہوئے فیملی سے باہر سے بھی گردہ لے لیتے تھے۔“
ملک کے مایہ ناز یورالوجسٹ ٹرانسپلانٹ سرجن پروفیسر ریاض احمد تسنیم نے بتایا کہ گردے ہمارے جسم کا اہم عضو ہیں۔ گردوں کا کام جسم سے فاسد مادے‘ نمکیات‘ فالتو پانی کا اخراج شامل ہے۔ اس کے علاوہ بلڈپریشر کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ خون کے سرخ ذرات کو پیدا کرنے اور ہڈیوں کو مضبوط بنانے کا اہم کام بھی سرانجام دیتے ہیں۔
گردے کے چند چیدہ چیدہ امراض میں موروثی بیماریاں‘ گردوں کی سوزش و ورم گردے و مثانے کی پتھریاں‘ انفیکشن خصوصی طور پر ٹی بی‘ گردے مثانہ و پراسٹیٹ گلینڈ کا کینسر اور پراسٹیٹ گلینڈ کا بڑھ جانا شامل ہیں۔ کسی چوٹ/ انفیکشن کی وجہ سے پیشاب کی نالی کا تنگ ہو جانا سمیت تمام امراض گردے کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جس طرح پوری دنیا میں مختلف دن بڑے اہتمام سے منائے جاتے ہیں اسی طرح گردوں کی اہمیت اور ان سے متعلقہ بیماریوں اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے 2006ءمیں ورلڈ کڈنی ڈے کا آغاز ہوا۔ اس کا سہرا 1999ءسے قائم شدہ تنظیم (IFKF) International fedration of kidney foundations کے سر ہے۔ ورلڈ کڈنی ڈے ہر سال مارچ میں منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس کا ایک موضوع ہوتا ہے۔ 2006ءمیں اس کا موضوع ”کیا آپ کے گردے صحیح ہیں“ 2007ءمیں ”عمومی‘ نقصان دہ اور قابل علاج“ 2008ءمیں ”حیرت انگیز گردے“ 2009ءمیں ”گردوں کی حفاظت کریں اپنا بلڈ پریشر درست رکھیں“ 2010ءمیں ”گردوں کی حفاظت کریں اور شوگر کنٹرول رکھیں“ 2011ءمیں ”گردوں کی حفاظت کریں اور اپنا دل بچائیں“ اور اس طرح امسال ”امراض گردہ اور موٹاپا“ اس کا موضوع ہے۔
ورلڈ کڈنی ڈے کو م¶ثر طریقہ سے منانے اور اس کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ورلڈ کڈنی ڈے سیکرٹریٹ کا قیام کیا گیا ہے۔ اس کا سیکرٹریٹ برسلز بلجیئم میں واقع ہے اور (IFKF) International fedration of kidney foundations کا ہیڈکوارٹر ہالینڈ میں واقع ہے۔ اگرچہ اس دن کا آغاز 2006ءمیں شروع ہوا مگر 2008ءکے بعد لوگوں میں اس کا شعور زیادہ بیدار ہونا شروع ہو گیا۔ اس دن کے منانے کا اصل مشن یہی ہے کہ لوگوں کو اپنے گردوں کی اہمیت اور ان کی مناسب حفاظت نہ کرنے کے باعث صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں آگاہی مل سکے تاکہ گردوں کی بیماریوں کی جلد تشخیص اور ان کا مناسب طور پر تدارک کیا جا سکے۔
اس وقت پوری دنیا میں شوگر کے مریضوں کی تعداد تقریباً ڈھائی سو ملین ہے۔ شوگر کے تیس فیصد سے زائد مریض گردے کے ناکارہ ہونے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بلڈپریشر گردوں کی خرابی کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ پوری دنیا میں بلند فشار خون کے تقریباً ایک بلین مریض ہیں اور ان بڑی وجوہات میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔
گردوں کی خرابی کی وجہ سے دل کے امراض اور اموات 8-10 گنا بڑھ جاتی ہے جو کہ ہارٹ فیل ہونے کی بڑی وجہ اور موت کا سبب بنتی ہے۔
اگلی دہائی میں پوری دنیا میں ڈائیلسز اور ٹرانسپلانٹ کا اندازاً خرچ ایک ٹریلین امریکی ڈالر بتایا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں دس فیصد سے کم افراد ایسے ہیں جو ڈائیلسز یا ٹرانسپلانٹ کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ یہ انتہائی تکلیف دہ اور قابل فکر بات ہے۔
گردوں کی خرابی کو تشخیص کرنے کے لئے مریض کی ہسٹری اور چند سادہ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ جن میں خون میں یوریا/ کریٹینن‘ پیشاب میں پروٹین کا آنا اور گردوں کے الٹراسا¶نڈ سے بھی کافی حد تک خرابی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
نیشنل کڈنی فا¶نڈیشن کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر جوزف واسوا نے بتایا کہ ہر نو میں سے ایک امریکی گردوں کی خرابی کا شکار ہے۔
مزید یہ کہ وان ڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل سنٹر ٹرینیسی کی ریسرچ کے مطابق 94 فیصد امریکی اس امر سے ناآشنا ہیں کہ وہ (CKD) گردوں کے عارضہ سے لاحق ہیں۔ یہ تمام ڈیٹا امریکہ جیسے ملک کا ہے جہاں ہر بات کا مناسب ریکارڈ رکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اعداد و شمار کی بہت کمی ہے۔ تاہم غیر ترقی یافتہ ممالک میں گردوں کے عارضہ میں مبتلا افراد کی تعداد یقیناً زیادہ ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی گردوں کی خرابی کا اضافہ روزافزوں ہے۔ ہسپتالوں میں رپورٹ کرنے والے مریضوں میں سے ہر دسواں مریض گردوں کے کسی نہ کسی عارضہ سے دوچار ہوتا ہے۔ گردوں کے اکثر امراض کو اگر شروع میں تشخیص کر لیا جائے تو وہ قابل علاج ہوتے ہیں وگرنہ یہ گردوں کے فیل ہونے پر منتج ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 20 ہزار سے زائد افراد کے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یا تو مریض کو اصولی طور پر ہفتے میں 3 مرتبہ ڈائیلسز کروانا پڑتا ہے یا پھر ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرانسپلانٹ کروانے کے باوجود تمام عمر ہر ماہ 20-25 ہزار کی ادویات استعمال کرنی پڑتی ہیں جو کہ مریض اور حکومت پر ایک بڑا اقتصادی بوجھ ہے۔ ستمبر 2007ءکے بعد سے پاکستان میں آرگن ٹرانسپلانٹ کا قانون بن چکا ہے جس کے تحت صرف قریبی عزیز/ رشتہ دار گردہ بطور عطیہ دے سکتا ہے۔ اگر قریبی اقرباءمیں سے گردہ دینے والا موجود نہ ہو تو اس کا کیس پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (PHOTA) کو بھیجا جاتا ہے اور اس کی منظوری کے بعد گردے کی پیوندکاری کی جاتی ہے۔
پیوندکاری کے بڑھتے ہوئے امراض کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے بچا¶ اور اخراجات کو کم کیا جائے۔ ڈائیلسز کا خرچہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور ایک مریض کے ساتھ دو سے تین رشتہ داروں کو آنا پڑتا ہے جن کے اپنے کام کا بھی حرج ہوتا ہے۔
یہ تمام اخراجات ٹرانسپلانٹ کروانے سے کم ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ (CADAVERIC) بعد از مرگ گردوں کا عطیہ دینے کے لئے باقاعدہ مہم شروع کی جائے اور اس کا مناسب انتظام کیا جائے۔ اس کا بہت زیادہ مریضوں کو فائدہ ہو گا اور اس طریقہ کار کی قانون میں بھی اجازت ہے۔
اِس رعایت کے بے جا اور غیرقانونی استعمال ک پر سپریم کورٹ نے گردہ پیوندکاری کے متعلق سوموٹو نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے ایکشن کی وجہ سے پنجاب انسانی اعضاءکی پےوندکاری کے اےکٹ نے غیر رشتہ دار سے گردہ لینے پر غیراعلانیہ پابندی لگا دی۔
اس پابندی کی وجہ سے کئی ایسے مریض جن کا خاندان میں کوئی بھی گردہ عطیہ کرنے والا نہیں
ڈائےلسز کروانے والی28سالہ مریضہ ثنا تنویر کے والد سےد تنوےر حسن رضوی نے بتاےا ”اس بےماری نے مےرے گھر کے تےن افراد کو نگل لےا ہے مےری بڑی بےٹی بھی ڈائےلسز کرواتی ہےں اب مےری چھوٹی بےٹی ثنا تنویر اس بےماری مےں مبتلا ہے۔ وہ بھی جانتی ہے کہ وہ گردے کی پیوندکاری کے بعد نارمل لوگوں کی طرح زندگی گزار سکے اور اپنی باقی تعلیم مکمل کر سکے لیکن ہمارے خاندان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کو گردہ عطیہ کر سکے۔ یہ بچی اس آس پر زندہ ہے کہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح اسے خاندان سے باہر گردہ لینے کی اجازت مل جائے ۔
وزےراعلیٰ مےاں شہبار شرےف خاندان سے باہر گردہ عطےہ لےنے کی غیراعلانیہ پابندی ختم کروا ئیں
ایک اور مریض محمد پرویز نے بتاےا ”مےرے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ پہلے بھائی کا گردہ ٹرانسپلانٹ ہوا اور سب سے بڑی بہن نے گردہ عطیہ کیا جو کہ چل نہ سکا تو درمیان والی بہن نے اپنا گردہ دے دیا۔ دوسرے بھائی کو بھی خاندانی بیماری کی وجہ سے گردہ پیوندکاری کی ضرورت پڑی تو تیسری اور آخری بہن نے اپنا گردہ بھائی کو عطیہ کر دیا۔ اب مےں (محمد پرویز) اس بےماری مےں مبتلا ہوں اور ڈائےلسز کرارہا ہوں۔ گردہ پیوندکاری کے مروجہ قانون کے بارے مےں معروف قانون دان محمد یوسف نے بتایا کہ اعضا پیوندکاری کا قانون 2007ءمیں آیا تھا اس وقت یہ صدارتی حکم کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ بعد میں 2010ءمیں یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا۔ بعد میں 2013ءمیں جب آئینی ترمیم کے ذریعے کئی محکموں کو صوبوں کے حوالے کیا گیا تو ہر صوبے کو بھی اپنی علیحدہ انسانی اعضاءکی پےوندکاری کے اےکٹ بنانا ہو گی۔ لاہور اور پنجاب کے کسی بھی علاقے میں اعضا کی پیوندکاری کیلئے پنجاب انسانی اعضاءکی پےوندکاری کے اےکٹ بنائی گئی جبکہ فےڈرےلHOTA اب صرف اسلام آباد اور قرب و جوار کے علاقوں میں ہی پیوندکاری کی اجازت دیتی ہے۔ اگر کسی کے پاس فیملی میں کوئی مناسب گردہ عطیہ کرنے والا نہیں ہوتا تھا تو متعلقہ ہسپتال کی سات بندوں پر مشتمل تشخےص کمےٹی اسے فیملی سے باہر سے گردہ لینے کی سفارش کر دیتی تھی۔ تشخےص کمےٹی اس بات کی سفارش تب ہی کرتی تھی جب وہ مطمئن ہوتی تھی کہ واقعی مریض کی فیملی میں کوئی بھی مناسب عطیہ کرنے والا نہیں ہے اور عطیہ بغیر کسی جبر اور لالچ کے عطیہ کر رہا ہے۔ تمام متعلقہ کاغذات اور کمیٹی کی سفارش فائنل اجازت نامے کیلئے پنجاب HOTAکو بھیجا جاتا تھا جو کہ اپنے طور پر اس بات کا اطمینان کرتا تھا کہ واقعی یہ حقیقی ضرورت مند ہے اور عطیہ کرنے والے پر بھی کوئی دباﺅ نہیں ہے جس کے بعد PHOTA اس کی اجازت دیتا ہے لیکن اب کچھ ماہ سے خاندان سے باہر گردہ عطیہ کی اجازت نہ ملنے سے ثناءتنویر، پرویز اور بصیر طور جیسے لاتعداد لوگ زندہ رہنے کی آخری امید سے بھی محروم ہو رہے ہیں“۔ ایسے لوگ مایوس ہو کر کرپٹ مافیا کے ہاتھوں چڑھ جاتا ہے جو کہ انہیں دور دراز کے علاقوں، گھروں یا آزاد کشمیر وغیرہ لے جا کر ان کا گردہ پیوندکاری کر دیتا ہے۔ ان جگہوں پر مناسب سہولتیں نہ ہونے سے یا تو ان کا گردہ کام نہیں کرتا ہ یا پھر وہ انفیکشن وغیرہ کی وجہ سے چند روز میںکام کرنا بند کردیتا ہے اورمریض جان کی بازی ہار جاتا ہیں۔ہمارے ہمسائے ملک ایران میں بھی نہ صرف فیملی سے باہر گردہ عطیہ کرنے کی اجازت ہے بلکہ اگر کسی مریض کے پاس فیملی گردہ عطیہ نہ ہو تو وہ حکومتی مدد سے کوئی علیہ کرنے والا لے سکتا ہے۔ اسی طرح برادر ملک سعودی عرب میں بھی باہر طرح کے اعضا عطیہ کرنے والے کو حکومت پوری طرح مدد فراہم کرتی ہے۔ کیا ثناءتنویر، محمد پرویز اور بصیر طور جیسے سینکڑوں مریضوں کو کوئی امید کی کرن دکھا سکتا ہے؟
آئیے ان کے لئے کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالیں جہاں وہ عزت کے ساتھ فیملی میں گردہ عطیہ نہ ملنے کی صورت میں بھی گردہ کی پیوندکاری کروا سکے۔