محب الوطن حکمران شارٹ ٹرم نہیں بلکہ لانگ ٹرم پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ حکمران اگر نااہل، بدنیت اور سیاسی عزم سے عاری ہوں تو وہ ڈنگ ٹپائو یعنی ایڈھاک ازم کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ حالت جنگ میں بے حسی، کاہلی اور غفلت قوموں کے لیے زہر قاتل ہوا کرتی ہے۔ سنگین حالات کے پیش نظر فوجی عدالتوں کی مدت کے خاتمے سے پہلے اس میں توسیع کا فیصلہ ہونا چاہیئے تھا۔ پاکستان کے عوام چوں کہ بوجوہ حکومتی امور سے لاتعلق ہوچکے ہیں اور پاکستان میں معیاری اور مثالی اپوزیشن موجود نہیں ہے۔ عدلیہ صرف حالات کا ماتم کرتی ہے اور حکمرانوں کو آئین اور قانون کی گرفت میں نہیں لاتی۔ میڈیا شور مچاتا اور خاموش ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں حکمران اور سیاسی اشرافیہ بلا خوف و خطر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق حکومت اور سیاست کرتے ہیںاور ہر قسم کے دبائوسے آزاد ہیں۔ لیڈر غیر معینہ مدت کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ سیاسی لیڈر اور کارکن چوں کہ سیاسی مزارع بن چکے ہیں اس لیے وہ اپنے لیڈر کو جمہوری اُصولوں کا پابند بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ پی پی پی کے مرکزی لیڈر افواج پاکستان کے خلاف انتہائی سخت بیان جاری کرنے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ نئے سپہ سالار جنرل جاوید قمر باجوہ اگر ان کی کال نہ سنتے اور ان پر فوج کے خلاف بیان واپس لینے کی شرط عائد کرتے تو آصف علی زرداری کبھی پاکستان واپس نہ آتے۔ جب تک بلاول بھٹو سیاسی بغاوت پر آمادہ نہ ہوں آصف زرداری کبھی سیاسی اختیارات سے دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ وہ سیاسی طاقت کی ’’برکات‘‘ سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
فوجی عدالتوں کی توسیع کے سلسلے میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس ہورہے تھے اور اتفاق رائے ہوچکا تھا ان حالات میں کسی اے پی سی کی ضرورت نہیں تھی مگر آصف علی زرداری نے اپنا سیاسی قدو قامت بڑھانے کے لیے اپنی سربراہی میں اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا جو دراصل نئی سیاسی چال تھی جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ مقتدر قوتوں کو باور کرایا جائے کہ پی پی پی سیاسی اور پارلیمانی قوت ہے اس کے تعاون کے بغیر آئینی ترمیم منظور نہیں کرائی جاسکتی لہذا مستقبل کے منظر نامے میں پی پی پی کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی اٹوٹ مفاہمت تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اے پی سی کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں تاکہ وہ اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ اعتماد سے معاملات طے کر سکیں۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی ظفر کی رائے ہے کہ پی پی پی نے نو نکات ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی پالیسی کے تحت حکومت کے سامنے رکھے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات قریب ہیں جو آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ انتخابات سیاسی لیڈروں کے لیے ’’مالیاتی سیزن‘‘ ہوتے ہیں جس میں پارٹی ٹکٹ دینے سے پہلے پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے جمع کیے جاتے ہیں جن کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ آصف زرداری کی پاکستان سے غیر حاضری اور بلاول بھٹو کی فعال اور سرگرم سیاست کی وجہ سے ان کی پارٹی پر گرفت ڈھیلی پڑچکی تھی وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر سیاسی اور سفارتی ملاقاتیں کرکے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط بنائیں گے اور بلاول لیڈر نہیں بلکہ فرزند نظر آئیں گے۔
پی پی پی کی اے پی سی بے نتیجہ رہی البتہ اس نے فوجی عدالتوں کے لیے نو شرائط پیش کردیں جو معروضی حالات کے تناظر میں قابل عمل نہیں ہیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت ایک سال رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ حکومتی ذرائع کے مطابق پی پی پی پہلے ہی دو سال کی مدت پر اتفاق کرچکی ہے۔ پی پی پی نے تجویز پیش کی ہے کہ فوجی عدالت سیشن جج یا ایڈیشنل جج اور فوجی افسر پر مشتمل ہو سربراہی سیشن جج کرے۔ سیشن جج کی نامزدگی متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں۔ یہ تجویز مضحکہ خیز ہے جس پر عمل کرنے سے عدالت نہ سول ہوگی اور نہ فوجی ہوگی اور فوری سماعت کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ مفلوج فوجی عدالتیں بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پی پی پی نے تجویز پیش کی ہے کہ ملزم کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے اسے الزامات سے آگاہ کیا جائے اور وکیل کرنے کا حق دیا جائے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس تجویز پر پہلے ہی عمل ہورہا ہے اور اسے نو تجاویز میں ’’زیب داستان‘‘ کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ ایک تجویز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہائی کورٹس کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار دیا جائے جو ساٹھ دن کے اندر فیصلہ کریں۔ پی پی پی نے تجویز پیش کی ہے کہ فوجی عدالتیں قانون شہادت پر عمل کریں۔ آصف زرداری نے نو تجاویز پیش کرکے پارٹی کے لبرل لیڈروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کی مفاہمتی سیاست سے اختلاف کرتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست عیار اور چالباز بن چکی ہے۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ سیاستدان ان معصوم اور بے گناہ شہریوں سے ہمدردی کا اظہار نہیں کرتے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں جان بحق ہوتے ہیں البتہ انہیں وحشی اور سفاک دہشت گردوں کے انسانی حقوق کی بڑی فکر ہوتی ہے اور وہ عالمی سطح پر خود کو لبرل ظاہر کرنے کے لیے فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ ان میں اتنی اہلیت اور سکت نہیں ہے کہ وہ کریمنل جسٹس سسٹم کو معیاری بناسکیں اور فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
فوجی عدالتوں نے گزشتہ دو سالوں میں 274دہشت گردوں کو سزائیں سنائیںجن میں سے 161دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ حکومت نے صرف 17دہشت گردوں کو پھانسی دی اور 113دہشت گردوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ دہشت گردوں کے ساتھ نرمی شہیدوں کے خون کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ کور کمانڈرز کے حالیہ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔پاکستان کے کئی نامور سیاستدان اور وکلاء فوجی عدالتوں کے بارے میں بڑے جذباتی ہیں جن میں چیئرمین سینٹ رضا ربانی، اعتزاز احسن اور حامد خان سرفہرست ہیں۔ ہمارے دیرینہ دوست حامد خان نے فوجی عدالتوں کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ ان کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے وابستگی قابل فہم ہے۔ کوئی ڈیموکریٹ فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کرسکتا۔ مثالیت قابل رشک خوبی ہے البتہ جب ملک حالت جنگ میں ہو اور دہشت گرد ریاست کے وجود کے لیے ہی خطرہ بن چکے ہوں اور کریمنل جسٹس سسٹم ناکام ہوچکا ہو ان معروضی حالات میں آئیڈیلزم پر ڈٹے رہنا دانشمندی نہیں ہوتی۔ فوجی عدالتیں حالات کی مجبوری اور قومی سلامتی کی ضرورت بن چکی ہیں لہذا ان کی مخالفت قومی سلامتی کے منافی اور وحشی درندوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگی۔ کاش وکلاء کریمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط، مستحکم اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے تحریک چلائیں جو ان کا آئینی فرض بھی ہے۔ فوجی عدالتوں میں مقدمات منتخب حکومتوں کی منظوری سے بھیجے جاتے ہیں۔ ان حالات میں فوجی عدالتوں کی مخالفت کا جواز نہیں رہتا۔ سیاستدان ضد اور ہٹ دھرمی کی بجائے عوام سے معافی مانگیں کہ وہ عوام کے قاتل دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
اگر گرفتار دہشت گردوں کو کڑی سزائیں دی جاتیں تو دہشت گردی کا سلسلہ تھم سکتا تھا۔ رب کائنات نے قاتل کی سزا موت رکھی ہے۔ انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ قانون قدرت کے سامنے کھڑا ہوجائے۔ نرمی، بے حسی اور غفلت کا مظاہرہ کرکے ہم لاکھوں معصوم جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ آصف زرداری کریمنل جسٹس سسٹم کو مستحکم، مؤثر اور فعال بنانے کے لیے اے پی سی بلائیں اور مثبت تجاویز پیش کریں تو قوم ان کی سیاسی بصیرت کی قائل ہوجائے گی۔ وزیر خزانہ استحاق ڈار کے مطابق فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے آئینی ترمیمی بل پر اتفاق رائے ہوچکا ہے قوی امکان ہے قومی اسمبلی اور سینٹ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کو منظور کرلیں گی۔افواج پاکستان کو اپنی شاندار کارکردگی اور قربانیوں کی وجہ سے ریاست پر بالادستی حاصل ہوچکی ہے۔حکمران اشرافیہ بیڈ گورنینس کی وجہ سے اپنی آئینی رٹ کھوتی جارہی ہے۔جب تک سیاستدان اپنی اہلیت اور کارکردگی ثابت نہیں کرتے سول ملٹری تعلقات متوازن نہیں ہوسکیں گے۔