لاہور (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) دو بیگناہ پاکستانی لڑکے واہگہ کے راستے پاکستان پہنچ گئے۔ بھارتی حکام دونوں طالب علموں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر لائے اور واہگہ بارڈر پر انہیں رینجرز کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں طالب علموں کو لاعلمی میں بھارت کی سرحد میں داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں اوڑی حملے میں مبینہ طور پر ملوث کر دیا گیا تھا تاہم خود بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے ان دونوں طالب علموں کو بیگناہ پایا اور پانچ ماہ بعد انہیں پاکستان کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ واہگہ بارڈر پر پاکستانی حکام کے علاوہ طالب علم فیصل اعوان اور احسن خورشید کے عزیزواقارب نے ان کا استقبال کیا جو بعدازاں انہیں لیکر آزاد کشمیر روانہ ہوگئے۔ اس موقع پر طالبعلموں کے عزیزواقارب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بھارت کا وطیرہ ہے کہ خواہ مخواہ پاکستان پر الزام تراشی کرتا رہتا ہے چودہ سال کے بچے دہشت گرد یا دہشت گردو ںکے سہولت کار کیسے ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو ایسے واقعات سے گریز کرنا چاہئے۔ طالبعلم فیصل اعوان کے بھائی ڈاکٹر غلام محی الدین نے کہا ہے کہ خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتے، جذبات بے قابو ہو رہے ہیں۔ میں تمام میڈیا اور ان لوگوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے رہائی میں مدد دی۔ پہلے دکھ کے آنسو تھے‘ اب خوشی کے آنسو ہیں۔ ہم نے لنچ اکٹھے کیا۔ تشدد کے حوالے سے ابھی بات نہیں ہوئی‘ لیکن وہ اچھی حالت میں نظر آرہے ہیں‘ لیکن وہاں کیا ہوا‘ ابھی تک تفصیلی بات نہیں ہو سکی۔ فیصل کی والدہ نے بتایا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ بہت ذہین تھا۔ رہائی کی بہت خوشی ہے۔ یقین نہیں آرہا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غلطی سے سرحد پار کرنے والے بچوں تک ہمیں قونصلر رسائی دی گئی تھی۔ جب بچوں سے ملاقات ہوئی تو تشدد کی کوئی بات نظر آئی تھی۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ سے ملاقات ہوئی تو طالبعلموں سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ خوشی ہے کہ دونوں طلبہ کی واپسی کوششوںکا مثبت نتیجہ نکلا۔ بچے اور خواتین غلطی سے سرحد پار کر جاتے ہیں۔ غلطی سے سرحد پار کرنے والوں کی جلد واپسی کیلئے میکنزم تشکیل دینا چاہئے۔ پاک بھارت مذاکرات میں غلطی سے سرحد پار کر جانے والوں کی واپسی کے میکنزم پر بات کریں گے۔ بدقسمتی سے پٹھانکوٹ واقعہ کے باعث بات چیت شروع نہ ہو سکی۔ امید ہے معاملات آگے بڑھیں گے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ پہلے بھی دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ تمام مسائل کا حل مذاکرات ہی ہیں۔