28 جولائی 2018 کو پانامہ کیس کے فیصلے میں قرار پایا کہ نوازشریف غیر وصول شدہ تنخواہ کو اثاثے کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنے میں ناکام رہے ۔ اس بنیاد پر آئین کے آرٹیکل f(1)62 کے تحت وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا ان کو اسمبلی کی رکنیت اوروزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے. اسکے ساتھ ساتھ انکو پارٹی کی صدارت بھی چھوڑنا پڑی کیونکہ پولٹیکل پارٹی ایکٹ کے تحت جو شخص پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا اہل نہیں وہ پارٹی سربراہ بھی نہیں ہوسکتا تھا حالانکہ آئین میں ایسی کوئی قدغن نہ ہے۔ ن لیگ نے الیکشن ایکٹ2017 کے ذریعے ترمیم کرکے یہ پابندی ہٹا دی اور نوازشریف کو دوبارہ صدر منتخب کرلیا۔ مخالفین سپریم کورٹ چلے گئے اور 21 فروری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ جو شخص پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا اہل نہیں وہ پارٹی سربراہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ پارٹی سربراہ کو پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ کے بارے اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو اس کے لئے بھی اہلیت اور نااہلیت کا وہ معیار یا پیمانہ ہونا چاہئے جوکہ ممبر پارلیمنٹ بننے کے لئے ہے۔
حالیہ تاریخ میں دو مختلف ممالک میں دو ایسے سیاسی رہنما موجود ہیں جن کو ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا جس کا شکار آجکل نوازشریف ہیں۔ اول ترک صدر طیب اردگان اور دوسرے اٹلی کے سابق وزیراعظم برلسکونی۔طیب اردگان 1994 میں چار سال کے لئے استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے ۔ اس دوران 1997 میں ان پر ایک جلسے کے دوران ایک نظم پڑھنے پر مذہبی عصبیت یا منافرت پھیلانے کا الزام لگا اور ترکی کی عدالت نے انکو 10 ماہ قیدکی سزا سنائی اور تاحیات پارلیمانی سیاست کے لئے نااہل کردیا۔ ان کو میئر کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور جیل میں قید کردیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے پھر سیاست میں اپنی نئی راہیں متعین کیں ۔ 2001 میں انہوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002میں اس پارٹی نے الیکشن جیت لیا۔طیب اردگان پر پارٹی سربراہ بننے پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی تھی لیکن و ہ الیکشن نہ لڑ سکے کیونکہ پارلیمانی سیاست کے لئے عدالت نے ان پر تاحیات پابندی لگا رکھی تھی۔ الیکشن کے بعد انہوں نے اپنے قریبی ساتھی عبداللہ گل کو وزیر اعظم بنایا اور انکی پارٹی نے جلد ہی آئین میں ترمیم کرکے انکی نااہلیت کو ختم کردیا۔ طیب اردگان نے ضمنی الیکشن لڑا اور پارلیمنٹ میں آکر وزیراعظم بن گئے۔ وہ اسکے بعد دو مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوئے اور اب ترکی کے صدر ہیں۔ اگرترکی میں بھی یہ قانون ہوتا یا عدالت یہ فیصلہ دیتی کہ جو پارلیمان کا ممبر نہیں بن سکتا وہ پارٹی کا صدر بھی نہیں بن سکتا تو ترکی اور مسلم دنیا اس عظیم رہنما سے محروم رہتی۔
اٹلی کے سابق وزیر اعظم برلسکونی کو آجکل اس صورت حال کا سامنا ہے۔ وہ تین بار اٹلی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور مجموعی طور پر 19 سال تک اٹلی کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ 2013 میں ان پر ٹیکس فراڈ کا مقدمہ بنا اور انکو دو سال قید اور 6 سال تک نااہلی کی سزا ہوئی۔ وہ اپنی عمر کیوجہ سے جیل جانے سے بچ گئے کیونکہ اٹلی کے قانون کے مطابق70 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو جیل نہیں بھیجا جاتا لیکن ان سے کچھ سوشل ورک وغیرہ کے لازمی کام لئے جاتے ہیں۔ اس وقت وہ الیکشن لڑنے کیلئے عدالتی حکم کی وجہ سے نااہل ہیں لیکن اپنی پارٹی فرزہ اٹالیہ کے صدر ہیں۔ انکی پارٹی نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنا کر گزشتہ اتوار کو ہونے والے الیکشن میں حصہ بھی لیا ہے اور خبریں یہی تھیں کہ انکا اتحا د الیکشن جیت رہا ہے۔
ان دونوں مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے جو شرائط ہیں وہ پارٹی سربراہ پر لاگو نہیں ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے ہمارے آئین میں بھی براہ راست ایسی پابندی نہیں ہے۔ لیکن ہماری سپریم کورٹ نے یہ پابندی لگانامناسب جانا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے مختلف مقدمات کے دوران جو ریمارکس میڈیا میں آجاتے ہیں وہ بہت دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کسی مقدمہ کے دوران چیف جسٹس صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر کسی فیصلے میں ہم سے غلطی ہوجائے تو اسکی نشاندہی کریں تاکہ ہم اس کو درست کرلیں۔ ایک توہین عدالت کے مقدمہ کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید صاحب نے فرمایا کہ وہ عدالت کے فیصلہ پر فیئر اور اَن فیئرتنقید بھی برداشت کرلیتے ہیں۔ان ریمارکس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں موجودہ فیصلے کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔ اول یہ کہ مختصر فیصلہ میں آرٹیکل 17 کو فیصلہ کے پیرا نمبر2 میں نقل کیا گیا ہے۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آرٹیکل کا حصہ نمبر(1 ) نقل کیا گیا ہے جوکہ ایسوسی ایشن کے بارے میں ہے نہ کہ سیاسی پارٹی بنانے کے بارے میں ۔ آرٹیکل 17 کاحصہ نمبر(2 ) سیاسی پارٹیوںکے بارے میں ہے۔اس کا ذکر فیصلے میںنہیں کیا گیا۔ وہ یہ کہتا ہے ’’ہر شہری جو پاکستان کا سرکاری ملازم نہیں یہ حق رکھتا ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنا ئے یا اس کا ممبر بنے اس پر مناسب قانونی پابندی ہونی چاہئے کہ وہ پاکستان کی سا لمیت اور خود مختاری کے خلاف کام نہ کرے۔ اور اگر کوئی ایسی پارٹی بن جائے یا ایسا کام کرنے لگے جو پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کے خلاف ہو تو وفاقی حکومت اس کو ایساڈکلیئر کرے اور 15 دن کے اندر سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے کیلئے بھیج دے گی‘‘۔ یہ آرٹیکل سیاسی پارٹی بنانے والے پر صرف دو پابندیاں لگا رہا ہے۔ اول سرکاری ملازم نہ ہو دوئم پاکستان کی سا لمیت اور خود مختاری کے خلاف کام نہ کرے۔ واضح رہے یہ دونوں پابندیاں آرٹیکل 62-63 کے تحت پارلیمنٹ کے ممبران کیلئے بھی ہیں۔ لیکن ان کے لئے اور بھی بہت سی پابندیاں ہیں جن کو آئین بنانے والوں نے سیاسی پارٹی بنانے والے کیلئے ضروری نہیں سمجھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ آرٹیکل 17بنیادی حقوق(Fundamental Rights )کے چیپٹر میں شامل ہیں۔ اس چیپٹر کے شروع میں لکھا گیا ہے کہ ان بنیادی حقوق کو کسی قانون یا روایت یا کسی اور طرح سے سلب نہیں کیا جاسکتا۔کیا جو پابندی آئین نے براہ راست نہیں لگائی وہ کسی اور طریقہ سے لگائی جاسکتی ہے چاہے بظاہر کتنا ہی زوردار جواز مہیا کیا جائے۔ اس کا جواب اس مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں موجود ہے۔ صفحہ نمبر27 پر محمد صدیق بلوچ مخالف جہانگیر ترین (PLD 2017 SC97 )کا کچھ حصہ نقل ہے۔اس میں پارلیمنٹ کے ممبران کی اہلیت /نااہلیت کا ذکر کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ’’ آئین کے تحت پبلک آفس کے جو ادارے ہیں پارلیمنٹ ، ایگزیکٹو (انتظامیہ ) اور جوڈیشل ان سب پر یہ پیمانہ لاگو ہونا چاہئے۔ لیکن ہمارے آئین نے خاص طور پر صرف منتخب پارلیمانی ممبروں پر اس کو لاگوکیا ہے ۔آئین نے یہ ہی معیار(NORM ) بنایا ہے تو ہم کو اسکی عزت کرنی چاہئے اور اس پر عملدرآمد کروانا چاہئے ‘‘ ۔تو اگر آئین نے براہ راست پارٹی سربراہ پر62-63 کی پابندی نہیں لگائی تو کیا بالواسطہ طور پر دوسرے آرٹیکل کا سہارا لے کر یہ پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں جبکہ دوسرے ممالک میں بھی ایسی پابندی نہیں ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ جج صاحبان نے یقینا یہ فیصلہ آئین اور قانون کو سامنے رکھ کر ملکی مفاد میں دیا ہوگا۔ لیکن میرے خیال میں سیاسی مقدمات کے فیصلے زیادہ مضبوط بنیادوں پر ہونے چاہئیں جن پر کوئی تنقید نہ کرسکے ۔ موجودہ حکومت کے خلاف آنے والے فیصلوں کو کمزور فیصلے کہا جارہا ہے۔ یہ بات نہ صرف قانونی حلقے ہی نہیں کہہ رہے بلکہ عمران خان بھی کہہ رہے ہیں۔جنہوں نے نوازشریف کو پارلیمنٹ اور پارٹی صدار ت سے نااہل کروانے کے لئے مقدمات دائر کئے تھے۔
فیصلے زیادہ مضبوط بنیادوں پرہونے چاہئیں
Mar 11, 2018