جس طرح حالیہ انسانیت سوز واقعات اور بچوں پر جنسی جرائم اور انکا بے دردی سے قتل ہوا ایک مسلمان اور بالخصوص پاکستانی ہونے کے ناطے میرا سر شرم سے جھک گیا ہے ۔ ایسے معاشرے میں جو بالکل بے حس ہو چکا ہے مجھے خود سے نفرت ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایک قانون دان ہونے کی نسبت سے مجھے اپنی ملک میں جرائم کی تفتیش کے ناقص نظام اور اداروں کی کرپشن پر رونا آتا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ایک معصوم بچی کی لاش جس پر بہیمانہ طور پر جنسی جرم ہوا اور اسکے قتل کر دیا گیا ملی اور ہم پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بھی نہ اخذ کر سکے کہ بچی کے قتل اور بہیمانہ تشدد کے درمیان کتنا وقفہ تھا تاکہ موت کے وقت کا تعین کیا جا سکے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ تفتیش کے دوران میڈیا ٹرائل ہو اور قیمتی شہادت کے ضائع ہونے کے امکانات بڑھ جائیں نہ کبھی ایسا دیکھا اور نہ کبھی ایسا سنا۔ شہادتیں عدالت میں وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی کے درمیان ہوتی ہیں، ان شہادتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا عدالت پر منحصر ہوتا ہے، یہ ہے قانون کا منشائ۔
آج کے دور میں جرائم کی نوعیت تکنیکی لحاظ سے بہت حد تک بدل چکی ہے کچھ عرصہ پہلے جنسی جرائم میں Porngraphy اور بالخصوص پھول جیسے بچوں پر تشدد کر کے انکی ویڈیو بنانا اور پھر اسے انتہائی مہنگے داموں باہر کے ممالک میں بھیجنا یہ سب مافیا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس میں ملوث افراد مالی اور سیاسی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ قانون کی گرفت ان پر نہیں آ سکتی کیونکہ قانون کی تفتیش ڈھیلی ڈھالی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کرپشن میں ڈوب چکے ہیں۔ جب تک قانون کی گرفت کو بے رحم نہیں بنایا جائے گا اور اس مکروہ دھندے پر ملوث ہونے والے افراد پر ہاتھ ڈالنا اور رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا تو جرم کبھی بھی ختم نہیں ہو گا، کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی طور پر نمودار ہوتا رہے گا۔ دراصل اس غلیظ انسانیت سوز کاروبار میں ملوث لوگ بڑی بڑی جائیدادیں اور فارم ہائوسز کے مالک ہیں اور جنکی چار دیواریوں میں ہر قسم کی برائیاں جنم لیتی ہے لیکن پولیس کا ہاتھ نہیں پڑتا۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ ہم پولیس میں انقلابی تبدیلیاں کیوں نہیں لاتے؟ اسکی خرابیاں کیوں دور نہیں کرتے۔ ادارے اتنے کمزور کیوں ہو گئے ہیں کہ ہمیں انصاف کے حصول کیلئے ہر مرتبہ سپریم کورٹ جانا پڑتا ہے۔ ہر معاملے میں سپریم کورٹ کیوں…؟ اور پھر ہم سپریم کورٹ پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں، ہم کیوں نہ ان اداروں میں رائج خرابیوں کو دور کر کے انہیں انقلابی طور پر مضبوط اور مستحکم بنائیں۔ ایک بچی کی معصوم تشدد زدہ لاش نے تمام بے حس لوگوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کیا ہے اور ان لوگوں کو حرکت میں لایا گیا جو صاحب اقتدار تھے مگر خاموش تھے۔ پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ یہ بچہ ہمارا تو نہیں ہے۔ یہ تو کسی غریب جھونپڑی یا کچے گھر کا بچہ ہے۔ اگر ایسا کسی اور ملک میں ہو جائے تو پولیس سے لیکر پارلیمان، نفسیاتی میڈیکل سائنس سب وسائل بروئے کار لاتے ہیں اور ملزم کی نفسیاتی، اندرونی اور بیرونی عوامل کو سامنے رکھ کر تفتیش کی جاتی ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات ہونے سے روکا جائے اور قوانین اور طریق تفتیش میں تبدیلیاں لا کر قوانین کو بہتر سے بہتر شکل میں لایا جائے مگر یہ اصول الٹا ہے ایک بہیمانہ واردات ہو گئی تو باسی ہانڈی میں ابال آ جاتا ہے اور پھر خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ میرے ذہن میں چند سوالات گردش کر رہے ہیں جو یہ ہیں:
1۔ وہ پوشیدہ ہاتھ کون سا ہے جو سامنے نہیں آیا یا نہیں لایا گیا۔ جب سو بچوں کا قتل ہوا اور قاتل یہ کہتا ہوا مر گیا کہ میرا بیان کسی مقتدر شخصیت کے سامنے کروایا جائے مگر اس کی اور اسکے ساتھی کی پراسرار موت جیل میں ہوئی، کیسے ہوئی، کس طرح ہوئی اسکے عوامل کیا تھے یہ ساری باتیں سوالیہ نشان ہیں۔ میں ان کا جواب چاہتی ہوں پاکستان کی شہری کے طور پر۔ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ وہ آگے آئے اور ایک اہم بات کی نشاندہی کی جس پر واضح طور پر عمل ہونا چاہیے تھا کہ وہ غلط ہے یا درست ہے مگرکیا ایسا ہوا کیوں سب لوگ ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ گئے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی مرنے والے کسی مجبور، معذور اور غریب خاندان کے بچے تھے ہمارے بچے نہیں تھے۔ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ان سب لوگوں سے اوپر ایک ذات ہے جو رب کی ذات ہے۔ ہم اس سے کیوں نہیں ڈرتے اور ہم ایسے قوم دشمنوں پر برملا ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے۔2۔ پولیس کے ارباب اقتدار کو نظر نہیں آتا اب جنسی جرائم کی جگہیں بدل گئی ہیں اب بچوں پر غیر فطری جنسی جرائم بس سٹاپوں پر ہوتے ہیں جہاں انتہائی منظم طریقے سے خوبصورت بچے سپلائی کئے جاتے ہیں اور انہیں اچھی رقم کے عوض جگہ بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بچے یا تو غربت افلاس یا گھروں میں ہونے والے تشدد کی وجہ سے بھاگے ہوتے ہیں اور ان درندوں کے ہاتھوں سے شکار ہو جاتے ہیں ان پر پے درپے غیر فطری جنسی جرائم کئے جاتے ہیں اور انکی بقایا زندگی نفسیاتی اندھیری زندگی میں بدل جاتی ہے۔
3۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اب جرم کا پتہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہم نے تفتیش میں فرانزک لیبارٹریز کا دائرہ کار کیوں نہیں بڑھایا اور کیوں نہیں ماڈرن ٹیکنالوجی کو تفتیش میں استعمال کیا اور کیوں نہیں پولیس کی تربیت اس نہج پر کی کہ وہ ان قوانین سے بخوبی واقف ہو کر تفتیش کو اب نئے انداز سے بڑھائیں۔ 4۔ کیا ہم نے بچوں کو جنسی جرائم سے دور رکھنے کیلئے کوئی Awareness پروگرام محلوں میں، دیہاتوں میں، گھروں میں یا سکولوں میں رائج کیے ہیں کہ بچوں کو بتایا جائے کہ انکو جنسی طور پر چھیڑ چھاڑ کرنے اور انہیں بہلا پھسلا کر گھل مل جانے والے اجنبی لوگوں کی نشاندہی کریں اور ان سے دور رہیں۔ 5۔ کیا ہم نے ڈھیلے ڈھالے قوانین جو کہ ہم نے باہر کے ممالک کے کہنے پر بنائے اس میں کوئی ایسی گنجائش رکھی ہے کہ جن بچوں پر گھروں میں تشد ہوتا ہے یا انہیں غفلت کا شکار بنا کر سڑکوں پر بھیک مانگنے کیلئے بھیجا جاتا ہے جن میں بعض اوقات انکے اپنے والدین شامل ہوتے ہیں انہیں کسی ایسے ادارے میں پہنچایا جائے جہاں انہیں ایک صاف اور شفاف ماحول دیا جائے اور انکی تعلیم اور تربیت کا بندوبست بھی کیا جائے۔ میں نے حال میں سوشل میڈیا پر ایک آدمی کو پانچ سال کے بچے کو دیوار سے لٹکا کر مارتے ہوئے دیکھا اور دوسری بچی کو ٹھوکروں سے مارتے ہوئے دیکھا۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بچے بڑے ہوکر نفسیاتی مریض نہیں بنیں گے۔ حکومتی طور پر ان کا کیا بندوبست ہے ہاں ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال شامل ہے جہاں ایک بچے کو جنسی تشددکا نشانہ بنایا گیا تو بچوں کی منسٹری کے علاوہ بیرون 13ممالک سے سٹیک ہولڈرز کو اپنے ساتھ لیا گیا اور تمام دنیا میں بچوں پر ہونیوالی وارداتوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں۔ پاکستان میں تو انہیں کوئی ڈیٹا بیس ہی نہیں ملا لہٰذا بچوں کے بارے میں کوئی واضح اور مربوط پالیسی نہ بنائی جا سکی۔ (جاری)