سیاسی جماعتیں تشہر اپنے پیسوں سے کریں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے نہیں ۔چیف جسٹس

لاہور (اپنے نامہ نگار سے‘نیوز ایجنسیاں)چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثارنے لیپ ٹاپ سکیم اور ہیلتھ کارڈز پر وزیراعلیٰ پنجاب کی تصاویر شائع کرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے قرار دیا کہ سیاسی جماعتیں تشہر اپنے پیسوں سے کریں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے نہیں ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال ، مسٹر جسٹس اعجاز الا احسن پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے ہفتہ کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں لیپ ٹاپ سکیم اور ہیلتھ کارڈز پر وزیراعلی پنجاب کی تصاویر شائع کرنے پراز خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیسہ عوام کا اور تصویریں وزیراعلی کی کیوں لگائی جارہی ہیں جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ لیپ ٹاپ سکیم اور ہیلتھ کارڈز وزیراعلیٰ پنجاب کی کاوش ہے جس پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعیدسے استفسار کیا کہ بتایا جائے لیپ ٹاپ سکیم پر کتنے اخراجات آئے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی پنجاب کی تصویر ہر جگہ کیوں آجاتی ہے شہباز شریف سے تصاویر چھپوانے پر وضاحت لیں،، پہلے زمانے میں لوگ چھپ کر خدمت کرتے تھے اب عوامی پیسوں سے تشہیر کرتے ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا ہے کہ آئندہ سماعت پر لیپ ٹاپ سکیم اور ہیلتھ کارڈ پر وزیر اعلی پنجاب کی تصویر پر وضاحت لے کر رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے دریائے راوی میں آلودہ پانی پھینکے جانے اور صاف پانی کی فراہمی سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیسوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے پی سی ون پیش کرنے کا حکم دے دیا،عدالت نے کمپنیوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ صاف پانی کمپنی میں افسروں پر کروڑوں روپے کے اخراجات کس حیثیت سے کئے گئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومتی کمپنیوں میں کروڑوں روپے کے اخراجات کس حیثیت سے کئے گئے اورافسران کو بلٹ پروف گاڑیاں کیوں فراہم کی گئیں،، چیف سیکرٹری نے بتایا کہ دوگاڑیاں خریدی گئیں تھیں ان کو بلٹ پروف کرانے سے روک دیا گیا ہے،،، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو کمپنیوں کی تمام تفصیلات دیدی۔ افسران کو دی جانے والی مراعات کی تفصیل فراہم کی جائے، چیف جسٹس نے نہروں اور دریاوں میں پھینکے جانے والے آلودہ پانی کی صفائی اورواٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تشکیل سے متعلق حکومت کی حمایت میں بات کرنے پر عدالتی معاون عائشہ حامد کی سخت سرزنش کی۔ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس برسوں سے ان کی حکومت میں ایک بھی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کیوں نصب نہیں ہوا، وزیراعلی پنجاب وضاحت کریں گذشتہ دس برسوں کارکردگی کیوں نہیں دکھائی،، ضرورت پڑنے پر وزیر اعلی پنجاب کو عدالت میں طلب کریں گے، لگ رہا ہے کہ صحت کے مسائل حکومت کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں، شہریوں کو پینے کیلئے زہریلا پانی مل رہا ہے، کارکردگی کا اشتہار چلاتے ہیں، جو نہیں کیا اسکا اشتہار بھی چلائیں، اورنج ٹرین پر اربوں روپے لگا دیئے پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے، اورنج ٹرین ،، موٹر وے جیسے دکھائی دینے والے منصوبے بنا کر عوامی پیسوں سے تشہیر کیسے کی جا رہی ہے چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت 31 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے پی سی ون کی رپورٹس عدالت میں طلب کر لیں۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے نجی میڈیکل کالجز میں فیسوں کی حد اور معیار مقرر کرنے کے لئے پی ایم ڈی سی،، یوایچ ایس اور دیگر فریقین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے سفارشات طلب کر لی ہیں،، عدالت نے نوے فیصد نمبروں کے باوجود میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم طالبعلموں کے لئے پانچ فیصد سیٹیں بڑھانے کے لئے سیکرٹری صحت پنجاب سے وضاحت بھی طلب کر لی۔ سیکرٹری صحت پنجاب نجم شاہ نے عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ ہم سے میرٹ کا قتل ہوا ہے جس کی وجہ سے میرٹ پر پورا اترنے والے ذہین طالبعلم داخلوں سے محروم رہ گئے،عائشہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ 2810 طالبعلموں کے 70 فیصد سے زائد نمبر ہیں جنہیں داخلہ نہیں مل سکا۔، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اتنے اہم عہدے پر بیٹھ کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا،، چیف جسٹس نے کہا کہ کم نمبروں کے باوجود نجی میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے طالبعلموں کوپڑھائی سے روکنا مناسب نہیں البتہ جن طالبعلموں کو نوے فیصد نمبروں کے باوجود داخلہ نہیں مل سکا ان کا مستقبل داو پر نہیں لگنا چاہئیے،، چیف جسٹس نے کہا کہ تمام نجی میڈیکل کالجز میں پانچ فیصد سیٹوں کا کوٹہ بڑھا کر ذہین طالبعلموں کو داخلہ دینے کے حوالے سے میکنزم بناکر چوبیس گھنٹوں میں عدالت کو پیش کیا جائے،، دوسری جانب چیف جسٹس نے فضائی آلودگی سے متعلق لئے گئے از خود کیس میں ڈی جی ماحولیات کی رپورٹ مسترد کردی۔ عدالت کے روبرو چیف سیکرٹری پنجاب نے انکشاف کیا کہ شہروں میں ناقص پیٹرول فروخت ہو رہا ہے جو کہ فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا میں ہسپتالوں میں کیوں نا جاﺅں، کسی نے تو ان لوگوں کا حال دیکھنا ہے، لوگ کس طرح کراہ رہے ہیں،کتنی بار وزیراعلیٰ یا افسر ہسپتالوں میں گئے ہیں، جن کا یہ کام ہے وہ نہیں کریں گے کوئی تو کرے گا، پاکستان میں گڈ گورننس کا یہ حال ہے، شہباز شریف کو تصویریں چھپوانے کا زیادہ شوق ہے تو ہمیں پیش ہو کر وضاحت کریں، نیب کو پنجاب حکومت کے اشتہارات کی تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا میں ہسپتالوں میں کیوں نا جاﺅں۔ کسی نے تو ان لوگوں کا حال دیکھنا ہے۔ لوگ کس طرح کراہ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا اورنج ٹرین پر کتنے لگیں گے۔ اس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ منصوبے پر 180بلین روپے لاگت آئے گی۔ چیف سیکرٹری کے بتانے پر اعتزاز احسن نے لقمہ دیا235بلین روپے خرچ آئے گا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ حالت ہے کہ ڈیٹ شیٹ پر بھی وزیراعلیٰ کی تصویریں چھپتی ہیں، کارکردگی دکھانی ہے تو کام کرکے دکھائیں، تصویریں چھپوا کر نہیں۔
سپریم کورٹ

ای پیپر دی نیشن