پاک بھارت علامتیں اور حقائق

پاکستان اور بھارت تو علامت تھے محض ایک علامت‘ مقابلہ تو پاک چین دوستی کا مشترکہ شاہکار جے ایف تھنڈر17 سے تھا جو مگ اور سکھوئی کو ہرا کر تھنڈر 17 جیت چکا ہے۔ پاکستان نے بھارتی طیارہ مارگراکر اس امریکی اعتماد کے بھی چیتھڑے اڑا دئیے ہیں جو اس نے بھارت کو چین کے مدمقابل کھڑا کرکے پالا تھا۔ اس نے بڑے زعم سے چین کو ڈرانے کے لئے نیا تھانیدار میدان میں اتارا تھا، اللہ کی کرنی، ’پاکستانی جَٹ‘ نے ایسا زور دار تھپڑمارا کہ ’’تاثیر‘‘امریکہ کو محسوس ہوئی ہے اور ’انڈو پیسیفک‘ کمانڈ کے غبارے میں بھری ہوا ٹھاہ کرکے نکل گئی ہے۔ امریکی اخبارات بھی بھارت کے خوب لتے لے رہے ہیں، اور امریکی انتظامیہ پر بھی ’لعن طعن‘ جاری ہے کہ یہ ہے وہ ’بالک‘ جس کا بہت چرچا ہورہا تھا۔ دھڑا دھڑ سرمایہ اور اسلحہ دیاجارہا تھا اور توقعات تھیں کہ چین کو قابو کرنے اور زنجیر پہنانے کے لئے بھارت بروئے کار آئے گا؟ اس کی صلاحیت کا مظاہرہ تو پوری دنیا نے دیکھ ہی لیا۔ سوال ہورہا ہے کہ کیا امریکہ اس پر بازی لگائے بیٹھاہے؟
پاکستان اور بھارت کے لڑاکا طیاروں کی جھڑپ سے بھارتی فضائیہ کی پیشہ وارانہ مہارت کا بھرم بھی کھْل گیا۔ بلاشبہ یہ واقعہ دونوں ممالک کے اسلحہ، ٹیکنالوجی، تیاری، حملہ کرنے اور دفاع کرنے سمیت ہر ہر شعبے میں موازنہ کا باعث بنا ہے۔ الحمدللہ پاکستان کی پیشہ وارنہ صلاحیتوں کا اعتراف دوست اور دشمن سب کررہے ہیں۔ جے ایف 17تھنڈر بنانے والی کمپنی کے حصص مسلسل بڑھنے کی بھی خبریں آرہی ہیں۔
بھارتی مگ 21 یکے بعد دیگرے کاغذ کے جہاز بن کر زمین بوس ہورہے ہیں۔ پچاس سال بعد ہونے والی اس لڑائی میں دونوں ممالک کی افواج کا امتحان ہوا۔ امریکہ کو بھارت سے بہت زیادہ امیدیں تھیں لیکن اس لڑائی کے بعد امریکی پریشان ہوگئے اور ان کی تمام امیدوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ انہوں نے سٹرٹیجک شراکت داری ایک ایسی فوج اور ملک سے کی ہے جس کی فوج کی پیشہ وارانہ حالت یہ ہے؟ اور وہ چلے تھے بھارت کے ذریعے چین کو زیر و زبرکرنے؟ مبصرین ہمارے ملک کے نام نہاد ترقی پسند بائیں بازو کے شردھالوئوں کی طرح اس واقعے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے ہیں۔ انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی کہ کہیں تو کیا کہیں؟ اور کون سے پانی میں ڈوب مریں؟بھارتی مسلح افواج کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، امریکی اخبار اور دیگر تجزیہ کار اس کے حصے بخرے کررہے ہیں۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ بھارت اس ملک سے ہار گیا جو اپنے حجم اور وسائل کے لحاظ سے اس کا آدھا بھی نہیں؟ امریکیوں کے نزدیک بھارتی فوج کی حالت نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے یا پھر یہ کہیں کہ خود امریکہ کی اپنی گھنٹی بج گئی ہے؟
امریکی سوچ رہے ہیں کہ کل کلاں اگر شدید جنگ ہوگئی تو بھارت اپنے دستوں کو صرف دس دن کا اسلحہ وگولہ وبارود مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ کسی اور کے نہیں خود بھارتی حکومت کا اپنا لگایا ہوا حساب ہے۔ بھارتی فوج کا68 فیصد سازوسامان پرانا ہے اور اب یہ شورشرابہ مچایا جارہا ہے کہ بھارتی فوج کے پاس جو اسلحہ ہے ، اْسے ’’قدیمی آثار ‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔امریکی حکام جنہیں امریکہ بھارت اتحاد مضبوط کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ بھی مایوسی کا شکار بتائے جاتے ہیں۔ اسلحہ کی خریداری اور مشترکہ فوجی مشقیں کرانے والی امریکی بیوروکریسی کا منہ مسلسل سوجا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ بھارتی بری، فضائی اور بحری فوج مل کر نہیں، اپنے اپنے طور پر کام کرتی ہیں اور ان میں کوئی اشتراک عمل نہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان اور امریکہ میں تعلقات مسلسل خراب ہوتے چلے گئے جس کے بعد امریکہ نے بھارت کی سرپرستی شروع کردی۔ اب سمجھ آتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے امریکہ کو اطمینان کیوں نہیںہورہا تھا۔ اصل میں مسئلہ چین کا تھا۔ چین کے خلاف پاکستان تو بے وفائی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس لئے انہیں بہانہ چاہئے تھا۔بھارتی بْت میں جان ڈالنے کے لئے ایک دہائی میں امریکہ سے بھارت کو اسلحے کی فراہمی زیرو سے بڑھ کر پندرہ ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بھی امریکی اسلحہ میں بھارت پر واضح برتری رکھتا ہے۔ بھارت نے اپنی سبکی چھپانے کے لئے اب یہ منترا پڑھنا شروع کردیا ہے کہ پاکستان نے روسی ساختہ کے پرانے مگ 21 کے خلاف ایف سولہ جہاز استعمال کیا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ ’’امریکہ اس رپورٹ کا جائزہ لے رہا ہے۔ ہم ان رپورٹوں سے آگاہ ہیں اور مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔ ہم فوجی سازوسامان کے ناجائز استعمال کے الزامات کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں۔‘‘ امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایف سولہ لڑاکا طیارے کا استعمال ہمسائے کے خلاف فروخت کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوسکتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کو کتنی تکلیف ہوئی ہے کہ اس کا پہلوان بیچ میدان میں مار کھا کر اس کی عالمی بدنامی کراچکا ہے۔ امریکی اپنے پٹھے کے رگ و پے میں جان ڈالنے کے لئے کیا کرتے ہیں، آنے والے دنوں میں پتہ چل جائیگا۔
2018ء میں بھارتی فوجی بجٹ 45 ارب ڈالر تھا۔ اس سال چین کا بجٹ 175 ارب ڈالر تھا۔ گزشتہ ماہ دہلی نے 45ارب ڈالر کا مزید بجٹ اعلان کیا ہے۔بھارت کے لئے رطب ا للسان امریکی زبان سے اگلوایا جارہا ہے کہ بھارتی عسکری بجٹ کا زیادہ تر پیسہ فوج کی تنخواہوں کی مد میں چلا جاتا ہے جبکہ 14ارب ڈالر نیا سامان خریدنے کے لئے بچ جاتا ہے۔ابھے نندن بھارتی فضائیہ کی ذلت و رسوائی کی علامت بن چکا ہے بھارتی تجزیہ نگار و حکمت کار لکیر پیٹ رہے ہیں سانپ کب کا نکل چکا ہے ۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن