محسن داوڑ اور علی وزیر کو جس طرح افغانستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔ جس والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا گیا اور اہمیت دی گئی اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ان منفی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ الگ بات ہے لیکن چہروں سے ہٹتے نقاب ہمیں اپنی سمت درست کرنے کے مواقع ضرور فراہم کر رہے ہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی اندرون ملک کارروائیوں پر سیاسی لوگ صرف حکومت پر دباو¿ بڑھانے اور حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان کے بیانیے کی حمایت کی جاتی ہے اور اگر کہیں ریاست انتہائی قدم اٹھاتی ہے تو ایسا طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ نجانے ان کے ہمدردوں کو اب سانپ سونگھ گیا ہے۔ خاموش کیوں بیٹھے ہیں۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز بھرے پڑے ہیں۔ دونوں کی اپنے حقیقی ہمدردوں کے ساتھ تصاویر شائع ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں محسن داوڑ اور علی وزیر کو دی جانے والی غیر معمولی اہمیت و حیثیت کو چھپانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ چونکہ یہ ریاست کے دشمنوں کی کارروائی تھی شاید اس لیے عوام کو حقیقت بتانے سے گریز کیا گیا ہے لیکن اگر وزیراعظم ان دونوں کو کابل جانے کی اجازت نہ دیتے، ان کے نام ای سی ایل میں ہی رہتے تو جہاں جہاں اس خبر کو چھپایا گیا ہے وہیں روکے جانے کی خبر نمایاں انداز میں شائع ہوتی۔ بہرحال انہیں رویوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ ہمیں اپنی ذات ملک سے مقدم ہے، ہمیں ہمارا کاروبار ملک سے زیادہ پیارا ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر پاکستان میں بیٹھے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو باغی بلوچ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کر رہے ہیں۔ وہ ملک کو برا بھلا بھی کہتے ہیں، ملک دشمنوں کو گلے بھی لگاتے ہیں ان سے فوائد بھی حاص کرتے ہیں، پاکستان کی سالمیت کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں اور پھر مظلوم و معصوم بھی بنتے ہیں۔ ملک میں خود کو انسانی حقوق کے چیمپئن کہلوانے والوں کو ایسے ملک دشمن عناصر کی وجہ سے تو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن ان چند بہکے ہوئے لوگوں کی وجہ سے جو تکلیف کروڑوں افراد کو پہنچتی ہے اس کا احساس کسی کو نہیں ہے۔ ایسے شرپسند اور بھٹکے ہوئے لوگوں کے جذبات اور خیالات کی اہمیت ہے تو کروڑوں افراد کے ملک کی سالمیت پر جب حملہ ہوتا ہے اس وقت بھی ردعمل اتنا شدید کیوں نہیں ہوتا۔ بالخصوص میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اور آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کو تو اس پر خاموش نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اس ملک پر سب سے زیادہ حق انہی لوگوں کا ہے۔ برسوں ملک پر حکمرانی کرنے والے بھی ایسے وقت میں خاموش رہیں تو پھر جان لیں کہ سب سے زیادہ نقصان ان دونوں جماعتوں کا ہی ہونا ہے کیونکہ اقتدار کی دوڑ میں یہی دوڑتے نظر آئیں گے۔ اقتدار کے لیے ملک کا قائم رہنا، افواج پاکستان کو مضبوط ہونا نہایت اہم ہے۔ جو ملک اور فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے وہ دوست نہیں ہو سکتا۔ جس ملک کی فوج اور دفاع کمزور ہوتا ہے اس کا مستقبل ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ ہمیں گذشتہ دو تین دہائیوں میں ایسی کئی مثالیں نظر آتی ہیں جہاں دفاع کمزور ہوا تو دشمنوں نے اس ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ الفاظ سخت اور مایوس کن ضرور ہیں لیکن حقیقت بیان کرنا اور ملکی سلامتی کے لیے آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے۔ سب سے اہم چیز پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھنا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے دشمن ہم میں سے ہیں، ہمارے جیسے چہرے ہیں، ہمارے جیسے زبان و لباس ہیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون دشمن ہے کون دشمن کا آلہ کار ہے، کون دشمن کا کھلاڑی ہے، کون دشمن کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ ان حالات میں ہمیں حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے چیزوں کو جوڑنا ہے سمجھ داری کا مظاہرہ کریں تو راز کھلتے چلے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے محسن داوڑ اور علی وزیر کو کابل جانے کی اجازت دے کر اچھا کیا اگر وہ انہیں روکتے تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شور اٹھتا، نقل و حرکت کو محدود کرنے کا الزام لگتا، جمہوریت کو خطرات لاحق ہوتے، پارلیمنٹ میں تقاریر ہوتیں، آزادی اظہار کا سبق پڑھایا جاتا۔ اب کابل میں ہونے والے استقبال اور خفیہ ایجنسی سے ہونے والی ملاقاتوں پر بھی اراکین اسمبلی کو اظہار خیال کرنا چاہیے۔
قومی سلامتی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور حکومت کی معاشی ٹیم کا نامناسب رویہ ہے۔ نامناسب ہی نہیں یہ رویہ غیر ذمہ دارانہ بھی ہے اور زمینی حقائق سے بہت ہٹ کر ہے۔ ہارون اختر نے بھی اس حوالے سے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی معاشی ٹیم زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہی ہے۔ جن لوگوں نے مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کام کرنا ہے وہی حقائق سے لاعلم ہوں گے تو مسائل ختم ہونا تو دور کی بات ان میں کمی بھی ممکن نہیں ہے۔ حکومت تین سو ارب عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے خرچ کرے تو ستر فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔ عوام کو سہولت دیں گے تو ٹیکس اکٹھا کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔ عوام کو سہولت دیے بغیر ان پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ وزیراعظم کا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا بیان خوش آئند ہے۔ ہمارے لوگ اب مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے، ہم نے فیصلہ کیا ہے ہم ہر وہ کام کریں گے جس سے بجلی کی قیمت کم ہو، بجلی بنانے والی کمپنیوں سے بات چیت کریں گے۔ کوئی ملک اس لئے غریب نہیں ہوتا کہ اس کے پاس وسائل نہیں بلکہ ملک غریب تب ہوتا ہے جب حکمران لوٹ مار کرتے اور پیسہ باہر لے جاتے ہیں۔ مشکل وقت گذر چکا ہے ہر وہ فیصلہ کریں گے جس سے عوام کی زندگی میں آسانی پیدا ہو۔
وزیراعظم کا یہ جذبہ حوصلہ افزا ہے۔ عوام ان سے اس سے بہت زیادہ توقع کرتے ہیں۔ یہ امید نہیں ٹوٹنی چاہیے۔ عمران خان محنتی، ایماندار اور خوش قسمت ہیں عوام نے انہیں دیرینہ مسائل ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا ہے۔ انہیں معاشی ٹیم کی نگرانی خود کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف میں وزیراعظم سے زیادہ عوامی مسائل کوئی نہیں جانتا نہ ہی کوئی انہیں حل کرنے میں اتنا سنجیدہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔ عوام نے ووٹ بھی عمران خان کو دیا ہے اور عوامی امیدوں کا محور و مرکز بھی وہی ہیں۔