بے روزگاری اور غربت پرقابو پانے کے لیے مرغیوںبھیڑبکریوں اور گائے بھینسوں کی تقسیم کے احسن عمل اور افادیت سے انکار نہیں لیکن جہاں ملک کی آبادی کا 28 فیصد سے زیادہ حصہ بے روگار اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو ؤہاں جانور تقسیم کرنے کا اقدام شاید غربت ختم کرنے کے لیے کافی و شافی ثابت نہیں ہو سکے گا ۔
اس قدر بے روزگاری کا سود مند ترین علاج یہ ہے کہ ملک میں صنعتی یونٹوں کا جال بچھا دیا جائے۔ انہیں پیداواری عمل میں رواں دواں رکھنے کے لیے بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات سمیت مطلوبہ سہولیات کی سستے داموں اور مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔خارجہ سرمایہ کار ی راغب کرنے کے لیے اندرون ملک ماحول سازگار بنایا جائے ۔ملک کے اندر سیاسی و طبقاتی گروہ بندیوں اور لڑائی جھگڑوںسے اجتناب کیا جائے۔وزیروں مشیروں کی طرف سابقہ حکمرانوں پر الزامات کی بجائے محبت کی مہک عام کی جائے ۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کو ترجیح دی جائے ۔بے روزگاری اور غربت کم وبیش ہر حکومت کے لیے چیلنج بنی رہی ہے۔
متعلقہ ہر حکو مت نے اپنی سوچ فکر صلاحیتوں اور دستیاب وسائل کے مطابق چیلینج کا مقابلہ کرنے اور اسے مات دینے کی کوشش کی ہے سابقہ حکمران میاں محمد نواز شریف نے بے روزگار افراد کو کم شرح سود پر قرض فراہم کیا ۔ آسان ترین شرائط پر پک اپ گاڑیاں فراہم کیں ۔ اس سلسلے میں تجربہ سے انہوں نے یہ سیکھا کہ بے روزگاری اور غربت پر قابو پانے کے لیے صنعتکاری کلیدی کردار ادا کرتی ہے سینکڑو ں مرغیاں گائے بھینسیں غربت مکانے میں اس قدر کام نہیں کر سکیں گی جتنا کسی علاقے میں ایک صنعتی یونٹ لگانے سے ہو سکتا ہے ۔چنانچہ انہوں نے پختہ سڑکوں کا جال بچھایا ۔ میگا پراجیکٹ شروع کیے۔ صنعت کے لیے مطلوبہ استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے لیے منصوبے شروع کیے ۔کھیت سے منڈی تک اور دیہات کو بڑے شہروں سے ملانے کا بندوبست کیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ میگا پراجیکٹس ہنگامی بنیادوں پر شروع کرا دیئے ۔
لاہور میں سڑکوں پر ہمہ وقت ٹریفک کا اژدہام رہتا تھا وہاں میٹروں بس چلائی ۔جہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا تھا وہاں میٹرو چلنے سے منٹوں میں منزل پر پہنچنے کا اہتمام ہو گیا ۔میٹرو کا ٹریک بچھانے اور بسوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے مزدوروں ٹکنیکل سٹاف اور دوسرے عملہ کے ہزاروں افراد کو روزگار مہیا ہو رہا ہے ۔
دوسرا اہم ترین پراجیکٹ اورنج ٹرین کا منصوبہ ہے ۔ ہزاروں افراد کی دن رات کی محنت سے منصوبہ تیزی سے تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ان سے بڑا منصوبہ سی پیک ہے ۔ روزگار کے مواقع پیدا ہونے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے ۔
سٹیٹ بنک کے گورنر جب سے آئے ہیں مارک اپ کی شرح میں اضافوں سے سرمائے کا حصول مشکل بنا چکے ہیں ۔ ان سے قبل مارک اپ کی شرح سنگل ڈجٹ پر تھی جو اب بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے ۔اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستانی ماہرین کی سوچ سے اسے دوبارہ سنگل ڈ جٹ پر لایا اور کاروباری مقاصد کے لیے سرمائے کا حصول ممکن بنایا جائے ۔ صنعت کا پہیہ تیز رکھنے کے لیے سستے داموں وافر بجلی کا حصول بہت ـضروری ہے ۔ سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان نے صنعت کے لیے سستی بجلی اور زرعی شعبہ کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے کالا باغ ڈیم منصوبے کو سرد خانے سے نکالنے اور اسے تعمیر کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔بعض سیاست دانوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔چنانچہ سابق چیف جسٹس نے کالا باغ ڈیم سے دستکش ہو کر بھاشا اور مہند ڈیموں پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دن رات ایک کرکے فنڈزاکٹھے کیے ۔ دریں اثنا جناب سابق چیف جسٹس صاحب ایسے ریٹائر ہوئے کہ منظر سے غائب ہو گئے ۔وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خاں صاحب سے درخواست ہے کہ فنڈز اور عطیات سے عوام کو آگاہی کا اہتمام کریں اور کسی ایک ڈیم پر کام شروع کرائیں تاکہ کاروبار ی طبقہ اور عوام کو امید کی روشنی مہیا ہو سکے ۔ یہی وہ راستے ہیں جن پر چل کر ملک میں بے روزگاری اور غربت پر قابو پایا جا سکے گا ۔