خواتین کے حقوق کے بارے میں قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے -خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے خواتین کے حقوق کی آواز بلند کی - پاکستان کے بڑے شہروں میں خواتین کے حقوق کے لیے پرامن ریلیاں نکالی گئیں- اسلام آباد کراچی لاہور کوئٹہ پشاور ملتان اور سکھر میں بڑی ریلیاں نکالی گئیں جن کا اہتمام اور انتظام عورت مارچ کی تنظیم جامعہ حفصہ کی خواتین جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین جمعیت العلمائے اسلام اور دیگر تنظیموں نے کیا تھا- خواتین کے عالمی دن سے پہلے پاکستان بھر میں عورت مارچ کے غیر اخلاقی اور غیر سماجی نعروں کی وجہ سے اشتعال پایا جاتا تھا اور اس بات کا خدشہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ خواتین کی ریلیوں کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا- حکومت اور سکیورٹی فورسز کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے پاکستان بھر میں ریلیاں پر امن رہیں- البتہ اسلام آباد میں چند شر پسندوں نے خواتین پر سنگ باری کی جو افسوسناک ہے پاکستان کا متفقہ آئین مقدس دستاویز اور سوشل کنٹریکٹ ہے -
اگر آئین پر خلوص نیت کے ساتھ عمل کیا جائے تو پاکستان میں انتہاپسندی اور اشتعال انگیزی کی صورتحال پیدا نہیں ہوسکتی آئین کے آرٹیکل نمبر 19 میں درج ہے" اسلام کی عظمت پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی یا دفاع غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات امن عامہ تہذیب اور اخلاق توہین عدالت کسی جرم کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائدکردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہوگا اور پریس کی آزادی ہوگی"
آئین کا یہ آرٹیکل بڑا واضح ہے مگر افسوس آئین اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا مغرب پسند تنظیموں اور دانشوروں کی جانب سے اس آرٹیکل پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا- جس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور فساد کی صورتحال حال پیدا ہو جاتی ہے - علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ ہم حقوق مانگتے ہیں مگرفرائض ادا نہیں کرتے- سماجی اسلامی اقدار اور آئین کے آرٹیکل کے برعکس عورت مارچ کی چند خواتین نے ایسے نعرے تخلیق کیے جن کی وجہ سے پورے پاکستان میں اشتعال اور نفرت کے جذبات پھیل گئے - تحریکی نعرے ایسے ہونے چاہئیں جو کاز یعنی مقصد کو آگے بڑھانے والے ہوں نہ کہ تحریک کے لئے ہی رکاوٹ بن جائیں- متنازعہ نعروں کی مخالفت کرنے والوں نے جو لہجے اختیار کیے وہ بھی انتہا پسندانہ اور اشتعال انگیز تھے- پورے اعتماد سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جانب کے افراد نے آئین کی خلاف ورزی کی جو تہذیب اور اخلاق پر زور دیتا ہے اور نفرت پھیلانے سے روکتا ہے -
اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کو بھی یہ اجازت نہیں دی تھی کہ وہ کافروں اور مشرکین کو دعوت حق دیتے ہوئے سخت لہجہ استعمال کریں بلکہ ان کو ہدایت کی گئی کہ اپنے لہجے نرم رکھیں- قائداعظم ہمارے سیاسی رول ماڈل ہیں انہوں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کوئی غیر پارلیمانی الفاظ استعمال نہ کیے اور نہ ہی کبھی وہ غصے اور اشتعال میں آئے- افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مغرب پسند اور اسلام پسند دونوں اسلامی اخلاقی اور سماجی اقدارکی پرواہ نہیں کرتے بلکہ قرآن کی بنیادی تعلیمات برداشت تحمل غرور تکبر سے گریز رواداری غصہ روکنا نرم لہجہ اور اعتدال سے کھلم کھلا انحراف نظر آتا ہے- تحریک لبیک پاکستان کو انتخابات میں 20 لاکھ ووٹ ڈالے گئے مگر ان کے رہنماؤں نے انتہاپسندی اور اشتعال انگیزی کی وجہ سے اپٹی ابھرتی ہوئی جماعت کو کمزور کرلیا -علامہ اقبال نے درست کہا تھا-
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی میرا ایمان ہے زناری
خواتین کے حقوق کے سلسلے میں پاکستان دنیا کے کئی ممالک سے بہت آگے ہے - امریکہ میں آج تک کوئی خاتون ن صدر نہیں بن سکی جبکہ پاکستان میں آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ خا تون محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی دو بار وزیراعظم منتخب ہوگئیں- انہوں نے اسلامی اقدار کو اہمیت دی اور اپنا دوپٹہ کبھی سر سے اترنے نہ دیا-
مادر ملت فاطمہ جناح جنہوں نے تحریک پاکستان کے دوران سرگرم اور فعال کردار ادا کیا انہوں نے ہمیشہ وقار اور حیا کا خیال رکھا-پاکستان ایک مسلم سوسائٹی ہے جس کے تقاضوں کو اہمیت دینا لازم ہے-پاکستان کا آئین خواتین کو اجازت دیتا ہے کہ وہ آئین اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں- دور جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا- مورخین محققین اور محدثین میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسلام نے جو حقوق خواتین کو دئیے وہ اور کوئی مذہب نہیں دے سکایہ ایک حقیقت ہے کہ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے- خواتین کو عزت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے معصوم بچیوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے خواتین کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی- گھروں میں ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے- فیکٹریوں اور دفاتر میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے - خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے البتہ ایسے نعروں اور لہجوں سے گریز کرنا چاہیے جو سماج کو تقسیم اور کمزور کرنے والے ہوں جن سے نفرت اور اشتعال پیدا ہو سکتا ہو-
پاکستان اپنی تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے پاکستان کے دشمن ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرپائے- پاکستان کے ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو مدنظر رکھیتاکہ وہ عناصر جو بیرونی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ان کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکیں -جو لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہیں ان سے کیا گلہ اور شکوہ کیا جائے ہمارا شکوہ تو ان سے ہے جو اسلام کے داعی ہیں مگر ان کا عمل ان کا رویہ اور ان کا لہجہ قرآنی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے-اللہ کرے پاکستان کے سماج سے یہ مہلک تضاد ختم ہو جائے-
خواتین کے حقوق نعرے اور لہجے
Mar 11, 2020