کہیں سستا کہیں مہنگا گھی!!!!

Mar 11, 2021

محمد اکرم چوہدری

حکومت اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ گذشتہ دو برس میں اس حوالے سے ان صفحات پر اتنا لکھا گیا ہے کہ بعض اوقات گمان ہوتا ہے کہ میں ابھی دو ہزار اکیس نہیں دو ہزار انیس میں ہوں۔ شروع سے یہی لکھ رہا ہوں کہ مہنگائی کو روکنا حکومتی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اگر مہنگائی پر قابو پانا ہے تو پہلے ترجیحات کو تعین ضروری ہے اگر حکومت ترجیحات کا تعین ہی نہیں کرتی تو پھر عام آدمی کی زندگی میں بہتری یا اشیاء  خوردونوش کی کم قیمتوں پر دستیابی اور بلا تعطل فراہمی ایک خواب ہی رہے گا۔ جب میں ترجیحات بارے لکھتا ہوں تو کئی دوست اعتراض کرتے ہیں کہ آپ غیر ضروری تنقید کرتے ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کوششیں کر رہی ہے۔ اب ایک ایسا شخص جسے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھنے یا کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے لیے ترجیحات کا تعین یا اسے سمجھنا مشکل ہے۔ اصولی طور روزانہ استعمال ہونے والی بنیادی اشیاء  ملک بھر میں یکساں قیمت پر دستیاب ہونی چاہیئں لیکن ایسا نہیں ہو سکا، حکومت اس حوالے سے بہتر فیصلے بھی نہیں کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈھائی سال گذرنے کے باوجود پاکستان تحریکِ انصاف اس بنیادی مسئلے کے حل میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس ناکامی کی بڑی وجہ اصل مسائل کو نظر انداز کر کے پوائنٹ سکورنگ کی طرف جانا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت زمینی حقائق اور ضروریات کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر غلطی دہرائی ہے، انہوں نے ایک مرتبہ پھر ویسا ہی فیصلہ کیا ہے جیسے فیصلے وہ آج تک کرتے آئے ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت کے بعد وزیرخزانہ نے بھی گھی مہنگا کرنے کی مخالفت کی جبکہ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ گھی عوام کی بنیادی ضرورت ہے، اضافہ نہ کیا جائے۔ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلٹی سٹورز پر گھی تیس  روپے فی کلو مہنگا کرنے کی اجازت دی تھی لیکن وزیراعظم عمران خان نے یوٹیلیٹی سٹورز کی حد تک اس اضافے کو منظور نہیں کیا۔ وزیراعظم کی ہدایت کے بعد یوٹیلٹی سٹورزپر گھی ایک سو ستر  روپے فی کلو ہی فروخت کیا جائے گا۔ وزیراعظم کی ہدایت کے بعد رمضان ریلیف پیکج میں بھی تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت اب یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کی بجائے ایک سو  ستر روپے فی کلو فروخت کیا جائے گا۔ یقینی طور پر اس فیصلے کے بعد رمضان پیکج کے تحت یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کی سبسڈی میں اضافہ کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے فیصد لوگ یوٹیلیٹی سٹورز سے گھی خریدتے ہیں، کتنے فیصد لوگ خریداری کے لیے یوٹیلٹی سٹورز جاتے ہیں۔ اگر یہ اعدادوشمار نکالے جائیں تو آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ اس سبسڈی سے یا اس رعایت سے نہایت محدود تعداد میں وگ مستفید ہو سکتے ہیں جب کہ گھی ہر گھر کی ضرورت ہے، ہر کھانے کی ضرورت ہے، ہر وقت کی ضرورت ہے۔ پھر یہ رعایت یوٹیلیٹی سٹورز کی حد تک محدود کیوں ہے؟
 کیا آپ کے علاقے میں یوٹیلیٹی سٹور موجود ہے، کیا آپ یوٹیلیٹی سٹور جاتے ہیں، اگر میں اپنے قارئین سے ہی پوچھوں تو چند معزز قاری ہی ایسے ہوں گے جو خریداری کے یوٹیلیٹی سٹورز کا رخ کرتے ہوں گے عوام کی بہت بڑی تعداد اپنے محلوں، چھوٹی چھوٹی دکانوں یا اپنے علاقوں میں جنرل سٹور سے خریداری کرتے ہیں یہ بہت بڑی تعداد ہے، دیہی علاقوں میں رہنے والے کس یوٹیلیٹی سٹور پر جائیں گے، چھوٹے شہروں والے کس یوٹیلیٹی سٹور پر جائیں گے یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ کم قیمت والے گھی کا یوٹیلیٹی سٹورز انتظامیہ کیا حشر کر دے۔ اس زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کے اس فیصلے سے مستفید ہونے والی محدود تعداد کو وقتی فائدہ تو ہو گا لیکن عوامی سطح پر مجموعی طور پر اس فیصلے سے بیچینی بڑھے گی۔ کیونکہ جو چیز ہر گھر کی ضرورت ہے وہ ہر دکان پر یکساں قیمت میں دستیاب ہونی چاہیے اور اس کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جن لوگوں کو سستا گھی نہیں ملے گا کیا وہ حکومت کی تعریف کریں گے یا پھر حکومت کو دعائیں دیں گے۔ یقیناً ان میں نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے اور بددعائیں دیں گے۔ کیا اقتصادی رابطہ کمیٹی کی ذمہ داری صرف مہنگائی کرنا ہے، کیا اس کے دائرہ کار میں صرف چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہی لکھا گیا ہے، عام آدمی کی قوت خرید کو بڑھانے کے لیے کام کرنا کس کمیٹی کی ذمہ داری ہے، عام آدمی کی آمدن کے ذرائع بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے۔ یہ مختلف کمیٹیوں والے صرف قیمتوں میں اضافے کے کاغذ لے کر ہی وزیراعظم کے پاس کیوں جاتے ہیں ان میں سے کویی اتنی اہلیت یا قابلیت نہیں رکھتا کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے، عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے، قوت خرید کو بڑھانے اور آمدن میں اضافے کا کوئی پلان لے کر وزیراعظم کے پاس جائے۔ ان کمیٹیوں میں شامل کسی فرد کو یہ احساس نہیں کہ دو سو روپے کلو گھی کرنے کے بعد عام آدمی کھانا کیسے کھائے گا۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان بھوک سے بچانے کے لیے مختلف فلاحی منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی ٹیم لوگوں کی بھوک کو بڑھانے میں مصروف ہے۔ آپ دستر خوان لگاتے جائیں، مفت کھانے کے منصوبے شروع کرتے جائیں ان سے کچھ فرق نہیں پڑ سکتا جب تک کہ ہر شخص اپنا کھانا خود خریدنے کے قابل نہ ہو سکے۔ عوام کو چندے اور خیرات کے کھانے پر لگانے کے بجائے ان کی عزت نفس کو بچانے اور اہنا وزن خود اٹھانے کی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ چندے اور خیرات کے کھانے نا تو قوم کی خدمت ہے نہ ہی ایسے ہم ایک غیرت مند، جرات اور بہادر قوم بن سکتے ہیں۔ جرات اور بہادری کے لیے خود اعتمادی کی ضرورت ہے اور خود اعتمادی اپنی ضروریات خود پوری کرنے سے ہی آتی ہے۔کاش کہ حکمران اس پہلو پر بھی توجہ دیں۔
کرونا وائرس دوبارہ حملہ آور ہوا ہے لوگ معیشت، روزگار اور کاروباری نقصان کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں لیکن میری نظر میں سب سے بڑا نقصان تعلیم کا ہے۔ بچے سکولوں سے دور ہیں یہ نقصان کوئی دولت پورا نہیں کر سکتی۔ حکومتی اقدامات اس حوالے سے ناکافی ہیں۔ کسی کو خبر ہے کہ ہمیں مکمل ویکسینیشن کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا شاید ہم افریقہ کے غریب ممالک سے بھی پیچھے رہ جائیں۔ ان حالات میں ترقی کا پہیہ کیسے چل سکتا ہے۔ اگر ہمیں کرونا کی سختیوں سے نکلنا ہے تو سب سے پہلے ویکسین کی طرف جانا ہو گا اور اس سے پہلے عوام کو ویکسین کے لیے تیار بھی کرنا ہو گا۔ ابھی ایک سروے ہوا ہے جس کے مطابق اکسٹھ فیصد پاکستانی کرونا کی ویکسین لگوانے کا ارادہ  رکھتے ہیں جب کہ انتالیس فیصد نے انکار کیا ہے۔یہ اعدادوشمار ریسرچ کمپنی آئی پی ایس او ایس نے جاری کیے ہیں۔سروے میں پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں ویکسین لگوانے کے بارے میں عوام زیادہ پْر جوش نہیں  تیئیس فیصد پاکستانیوں کو ویکسین کے مضر اثرات کا خوف ہے جب کہ  21 فیصد کرونا سمیت ہر قسم کی ویکسین کے خلاف ہیں۔
ملک بھر میں ساٹھ سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کو کرونا ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ پاکستان میں کرونا کے باعث اب تک پانچ لاکھ پچانوے ہزار دو سو انتالیس افراد متاثر جب کہ تیرہ ہزار تین سو چوبیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت ویکسینیشن کے عمل کو تیز کرے۔اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

مزیدخبریں