لاہور (شہزادہ خالد) لاہور میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ سنگین ہو گیا۔ نوائے وقت کے سروے کے مطابق ہوٹلوں، فیکٹریوں، ورکشاپس، چائے کے کھوکے، دکانوں، کاروباری مراکز پر بچوں سے دھڑلے سے مشقت لی جا رہی ہے۔ زیادہ تر بچوں کی عمریں 8 سے 14 برس کے درمیان ہیں۔ سب سے زیادہ بچے چائے کے ہوٹلوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور میں موجود تین ہزار سے زائد فیکٹریوں اور کارخانوں میں 16 برس سے کم عمر کے 20 ہزار سے زائد بچے مزدوری کر رہے ہیں۔ کئی قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لئے آئی ایل او کے کنونشنز اور ’’بچوں سے مشقت کی ممانعت کے پنجاب آرڈیننس2016 ‘‘ پر دکھاوے کی کارروائی کی جاتی ہے۔ آرڈیننس کے مطابق آجر اپنے بالغ ملازم سے ایک دن میں آرام کے وقفے کے ایک گھنٹے کے لازمی دورانیے سمیت سات گھنٹوں سے زائد اوقات کار سے ہرگز تجاوز نہیں کرے گا۔ بالغ افراد کے لئے شام سات بجے سے صبح آٹھ بجے کے دوران کام یا اوور ٹائم کی ممانعت ہے۔ آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے پر کم از کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک قید، دس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ ہوٹلوں پر کام کرنے والے بچوں، امجد، نذیر، فریاد و دیگر نے بتایا کہ انکے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ کئی ایک کے والد نشے کے عادی ہیں اور والدہ بیمار ہیں۔ اس لئے وہ مجبوری میں کام کرتے ہیں۔ شاد باغ کے رہائشی 12 سالہ بچے ندیم نے کہا کہ اسکی دو چھوٹی بہنیں ہیں۔ اسکا والد فوت ہو گیا ہے۔ حکومت کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کی کفالت کا بھی ذمہ لینا چاہیئے۔