الیکشن کمشن نے یوسف گیلانیکی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا نااہلی پر سماعت22مارچ کو ہوگی

Mar 11, 2021

اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی) الیکشن کمشن نے پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی سینٹ الیکشن میں کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کردی۔تاہم نااہلی کی درخواست کو 22 مارچ کو سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی، علی حیدر گیلانی کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمشن نے  درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ ویڈیو سکینڈل میں نظر آنے والے افراد کو درخواست میں لازمی فریق بنایا جائے۔ ممبر پنجاب نے کہا کہ کیا امیدوار کی جانب سے بدعنوانی کا کوئی ثبوت ہے؟۔ عالیہ حمزہ نے جواب دیا کہ الیکشن کمشن کے سامنے بولیاں لگتی رہی ہیں، پورے پاکستان کی نظریں الیکشن کمشن پر ہیں، الطاف قریشی نے کہا کہ یہی تو جمہوریت اور خفیہ ووٹنگ کا حسن ہے۔  وکیل نے کہا کہ جمہوریت کے اسی حسن کی وجہ سے پیسوں کے بریف کیس چلے، دیکھنا ہے کہ بدعنوانی کا فائدہ کس کو پہنچا، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے نے ٹی وی پر ویڈیو کو تسلیم کیا، کرپٹ لوگوں کو پارلیمان میں داخلے سے روکنا الیکشن کمشن کا کام ہے، بیلٹ پیپر قابل شناخت نہیں تو کیا کرپشن کی اجازت دیدیں؟۔ پورے میڈیا پر کوئی اعتراف کرے تو اسے بطور ثبوت قبول کیا جاتا ہے۔ ممبر کے پی کے ارشاد قیصر نے کہا کہ انہیں بھی سامنے آنا چاہیے جو کہیں کہ ویڈیوز میں کرپشن ہوئی ہے، رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو سامنے لائیں۔ ممبر پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ پہلے بھی حیدر گیلانی کی ویڈیو دیکھی اور پوچھا تھا نظر آنے والے کون ہیں؟ رشوت سے مستفید ہونے والے اصل ملزم ہیں، علی حیدر گیلانی کی ویڈیو میں نوٹوں کی چمک نہیں تھی۔ پی ٹی آئی نے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو بنانے والے کا بیان حلفی جمع کرا دیا۔ وکیل نے کہا  علی حیدر گیلانی کی ویڈیو ایم این اے جمیل احمد خان نے بنائی۔ ویڈیو بنانے والے کمشن میں گواہ بننا چاہتے ہیں، علی حیدر گیلانی کی پیشکش مسترد کی گئی۔ ممبر سندھ نثار درانی نے پوچھا کہ کیا یہ ویڈیو سٹنگ آپریشن ہے؟۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ ویڈیو خود بنائی گئی۔ اسے سٹنگ آپریشن نہیں کہا جا سکتا۔ ممبر پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ ایم این ایز نے علی حیدر گیلانی سے ملاقات ہی کیوں کی؟ دونوں فریقین کا مشترکہ مفاد تھا تب ہی ملاقات ہوئی۔ پی ٹی آئی کیلئے بھی یہی بہتر ہے کہ رشوت کیلئے ملنے والوں کو سامنے لائے۔ ملاقات تو حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کی بھی ہوئی تھی۔ ممبر کے پی کے ارشاد قیصر نے کہا کہ ویڈیو کو بطور ثبوت من و عن تسلیم نہیں کر سکتے۔ ویڈیو کو جانچنے کیلئے معیار سپریم کورٹ مقرر کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ جمیل احمد اور فہیم خان الیکشن کمشن میں پیش ہونے کو تیار ہیں۔ الیکشن کمشن نے ڈسکہ میں سوموٹو لیا اور نتائج روک دیے، الیکشن کمیشن نے ٹی وی دیکھ کر ہی فیصلے کیے تھے۔ ممبر کے پی کے ارشاد قیصر نے کہا کہ کلمہ پڑھ کر کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں۔ ڈسکہ میں تو پریذائڈنگ افسر لاپتہ ہوگئے تھے۔ پی ٹی آئی وکیل نے راجہ پرویز اشرف کی ویڈیو بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ راجہ پرویز اشرف نے کہا ہم سے لوگوں نے ایڈوانس پکڑا ہے، مریم نواز نے (ن) لیگ کے ٹکٹ دینے کی پیشکش تسلیم کی۔ آصف زرداری نے انٹرویو میں کہا فرق پانچ کا ہے بیس کا ہونا چاہیے تھا۔ الطاف قریشی نے کہا کہ فیصل واوڈا کا نوٹیفکیشن روکنے کی استدعا بھی کی گئی تھی۔ ہمارے پاس تو بہت درخواستیں آئیں کیا تمام سینیٹرز کے نوٹیفکیشن روک لیں؟۔ فیصل واوڈا کی موجودگی میں بھی انہیں مہلت دی، آپ نے بہت کوشش کی لیکن بکنے والوں کے نام بھی دیں۔ علاوہ ازیں الیکشن کمشن نے یوسف رضا گیلانی سمیت کامیاب ہونے والے 48 سینیٹرز کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ سینٹ انتخابات 2021ء کے بعد پاکستان تحریک انصاف ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آ چکی ہے۔  دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے نومنتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے خلاف پی ٹی آئی کے ایم این اے علی نواز اعوان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کرمسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری طور پر عدالتوں کو سیاسی معاملات لانا ٹھیک نہیں، ابھی آپ کے پاس شکایت کے ازالہ کے لئے متبادل فورمز موجود ہیں، متبادل فورم سے فیصلوں کے بعد عدالت آئیں۔ علی نواز اعوان نے کہا ہم الیکشن کے نظام میں شفافیت لانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کی اپنی سیاسی جماعت نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے رجوع کر رکھا ہے، ابھی آپ کے پاس شکایت کے ازالہ کے لیے متبادل فورمز موجود ہیں، ابھی الیکشن پراسیس چل رہا ہے اور الیکشن ایکٹ کے تحت آپ کے پاس متبادل فورم موجود ہیں، بتائیں کہ عدالت ان تمام فورمز کو نظرانداز کر کے کیسے رٹ پٹیشن پر سماعت کرے؟ آپ ووٹ فروخت کرنے کا الزام لگا رہے ہیں، ان میں تو وہ بھی شامل ہیں جو آپ میں سے ہی ہیں، ہم قانون کے مطابق ہی چلیں گے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار ہے، اس معاملے میں آپ کا ثبوت سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ویڈیو ہائیکورٹ میں ثابت کرنا ناممکن ہے، جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ  ہماری سوسائٹی کی ویلیوز کو ظاہر کرتا ہے، پارلیمنٹ پر ہم مکمل اعتماد کرتے ہیں، کووارنٹو کی رٹ میں وڈیو کو ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے، اس موقع پر ہم کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتے الیکشن کمیشن آئینی فورم ہے وہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے، ہم نے ہمیشہ پارلیمنٹیرینز کا احترام کیا ہے، قانون کی پاسداری کرنا ہم سب پر فرض ہے، آپ کا کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے پہلے اسی فورم کو استعمال کریں، عدالت نے درخواست گزار سے کہاکہ علی نواز اعوان صاحب آپ بڑے اچھے اور قابل صلاحیت عوامی نمائندے ہیں،آپ ایسی درخواستیں یہاں کیوں لے کر آتے ہیں، اس موقع پر یہ رٹ قابل سماعت نہیں ہے۔

مزیدخبریں