علامہ منیر احمد یوسفی
اسریٰ کے معنی رات کو لے جانے یا چلانے کے ہیں چونکہ نبی کریمؐ کا یہ حیرت انگیز معجزانہ سفر رات کو ہوا تھا اِس لئے اِس کو اسراء کہتے ہیں اور قرآنِ مجیدمیں اِس کو اِسی لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی پاک ہے وہ ذات جو اپنے (محبوب) بندے (حضرت محمد مصطفی ؐ) کو لے گیا‘‘۔معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اُوپر چڑھنا کے ہیں۔ چونکہ اَحادیث مبارکہ میں آپ ؐسے عُرِجَ لِیْ مجھ کو اوپر چڑھایا گیا‘ مروی ہے۔ اِس لئے اِس کا نام معراج ہے۔
آیتِ مبارکہ میں تین کلمات قابلِ توجہ ہیں (۱)اَسْرٰی ( ۲)عَبْدِہٖ اور (۳)لَیْلًا۔ اَسْرٰی رات کو لے جانا اور لَیْلًا سے مراد رات ہی کو ہے۔ لَیْلًا کا لفظ دو زبر کی وجہ رات کی قلت کو بیان کرتا ہے یعنی رات کے تھوڑے حصّے میں یعنی راتوں رات۔ اِس سیر کے کرانے کا دعویٰ ربِّ ذوالجلال والاکرام کا ہے۔ چونکہ سفر محیر العقول ہے اِس لئے رَبِّ کائنات نے پہلے اپنی تسبیح بیان فرما دی تھی، تاکہ پڑھنے‘ سننے والے کے دِل میں یہ بات اُتر جائے کہ جس ذاتِ برحق نے سیر کرائی ہے وہ ہر قسم کی کمزوری‘ خامی اور نقص سے پاک ہے،اور اُس کے لئے اَیسی سیر راتوں رات سیر کرا دینا ناممکن اور مشکل نہیں۔ صرف مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے آنے کا سفر ڈیڑھ دو ماہ کا تھا۔ لیکن رات کے کچھ حصّے کا دعویٰ اور دعویٰ بھی قادرِ مطلق رب ذوالجلال والاکرام کا۔ پھر یہ سفر روح کا نہیں یا خواب کا واقعہ نہیں بلکہ روح مع الجسد اور بیداری کا واقعہ ہے۔ بیان شدہ تینوں کلمات میں اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ اور لَیْلًا روح مع الجسدبیداری میں سیر کی تائید قرآنِ حکیم سے ہی ہو جاتی ہے اِس کے لئے سورۃ الدخان کی آیت مبارک نمبر ۲۳‘ سورئہ طٰہٰ کی آیت نمبر ۷۷‘ سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۵۲‘ سورئہ ھود کی آیت نمبر ۸۱ اور سورۃ الحجر کی آیت مبارک نمبر ۶۵دیکھی جا سکتی ہے۔
اِن آیاتِ مبارکہ میں حضرت سیّدنا موسیٰؑ اور حضرت سیّدنا لوط ؑ کا واقعہ بیان ہے۔ سورۃ الدخان میں اللہ حضرت موسیٰؑ کو اِرشاد فرماتا ہے فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّکُمْ مَّتَّبَعُوْنَo ’’کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں ضرور آپ کا پیچھا کیا جائے گا‘‘۔ اِسی طرح سورۃ الشعراء کی آیت مبارک نمبر ۵۲ میں ہے وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَo ’’اور ہم نے موسیٰؑ کو وحی فرمائی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا‘‘۔ حضرت لوطؑ کو سورئہ ھود کی آیت مبارک نمبر ۸۱ اور سورۃ الحجر کی آیت مبارک نمبر ۶۵ میں فرمایا گیا فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ ’’تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے کر چلے جائیے‘‘۔
اِن آیاتِ بینات اور واقعات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب اَسْر ٰی‘ بِعَبْدِہٖ‘ لَیْلًا یا اسری اھلک اور لی ل کا ذکر آئے تو واقعہ جاگتے‘ بیداری اور روح مع الجسد کا ہوتا ہے۔
مقام غور ہے‘ رَبِّ ذوالجلال نے اپنی سورۃ النمل میں حضرت سیّدنا سلیمانؑ کے ایک اُمّتی کا واقعہ بیان فرمایا ہے جس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے تین ہزار میل سفر طے کر کے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔جب خالقِ کائنات کے عظیم بندوں کا یہ کمال ہے ۔ اللہ لا محدود طاقتوں کا مالک ہے اُس نے رات کے کچھ حصّے میں اِتنا لمبا سفر طے کروا دیا کہ عقل اِنسانی حیرت میں مبتلا ہے۔آپ ؐ نے اس سفر معراج میں کیا کچھ ملاحظہ فرمایا چند واقعات قارئین کرام کی نذر کئے جاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓاور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ ؐنے ایک جماعت کو ملاحظہ فرمایا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ، اُدھر کٹ رہے ہیں پھر اُسی وقت دوبارہ صحیح ہو جاتے ہیں پھر کٹتے ہیں پھر صحیح ہو جاتے ہیں۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں؟ عرض کیا گیا یہ وہ فتنہ پرور واعظیں‘ مدرسین اور مقررین ہیں ( جو کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے)۔ ابوسعید خدریؓ ‘ فرماتے ہیں ‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھڑوں جیسے ہیں۔ جب وہ اُٹھنا چاہتے ہیں تو گر پڑتے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ یہ لوگ فرعونی جانوروں سے روندے جاتے ہیں اور بارگاہِ ربِّ ذوالجلال میں آہ و زاری کر رہے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہم معراج کی رات اُس قوم تک پہنچے جس کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ حضور نبی کریم ؐ فرماتے ہیں ہم نے جبرائیل سے پوچھایہ لوگ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل ؑنے عرض کیا یہ سود خور ہیں۔ پھر یہ بھی روایت ہے بعض لوگ اُونٹوں اور جنگلی جانوروں کی طرح کانٹوں والے جہنمی درخت کھا رہے تھے۔ جہنم کے پتھر اور اَنگارے نگل رہے تھے۔ آپ ؐنے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو جبرائیل نے عرض کیا یارسول اللہؐ یہ لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتے تھے۔ اللہ نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
نبی الانبیائؐ فرماتے ہیں کہ کچھ دُور چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں سینوں سے بندھی اُلٹی لٹکی ہوئی ہیں‘ ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں؟ تو بتایا گیا یہ بدکار عورتیں ہیں ،اور اپنی اَولاد کو قتل کرتی تھیں۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐنے فرمایا میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن نحاس یعنی تانبے کے تھے وہ اُن ناخنوں سے اپنے سینوں اور چہروں کو خراش رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آبرو ریزی کرتے اور غیبت کے در پے رہتے تھے۔
حضرت ابوسعید خدری‘فرماتے ہیں‘ حضور ؐنے فرمایا: میں نے کچھ قومیں دیکھیں جن کے ہونٹ اُونٹ کے جیسے تھے اور اُن کے منہ کھول کر بدبودار گوشت اُن کے منہ میں ڈالا جاتا۔ جوپاخانے کے راستے سے نکل جاتا اور وہ چیخ و پکار کرتے۔ رسول اللہ ؐ کو بتایا گیایہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے (اور اپنے مال سے صدقہ نہ دیتے تھے) ۔ نبی مکرم ؐ کا ایک شخص پر گزر ہوا۔ اُس نے بہت بڑا گٹھا جمع کیا ہوا تھا مگر اُس کو اُٹھا نہیں پاتاتھا پھر بھی اور اِضافہ کر رہا تھا۔ پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے؟ عرض کیا آپ ؐ کی اُمّت سے وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی اَمانتیں ہیں جن کو وہ اَدا نہیں کر سکتا۔ مگر اِس کے باوجود اَمانتیں لے رہا ہے اور اپنے اُوپر حقوق (کا بوجھ) چڑھا اور بڑھا رہا ہے۔