اس سال بایئس فروری انیس سو اکہتر کو شروع ہونے والے میڈیکل کالج کو بفضل خدا ، پچاس سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس کالج کے طلبا اندرون ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دیتے ہوئے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ قارئین میں چونکہ دوسرے بیچ سے تھا اس لئے میری نگارشات ، اس وقت کے مطابق ہوںگی۔ایک چھوٹے سے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ سے شروع ہونے والا یہ کالج آج نہ صرف اپنی گولڈن جوبلی منانے جا رہا ہے ، بلکہ اس عزم کا آئینہ دار ہے جس سے کام لیتے ہوئے اس کے عظیم اساتذہ نے اپنا تن من صرف کر دیا تھا۔ بانی پرنسپل سید علمدار حسین وائس پرنسپل ڈاکٹر نواب احمد خان صاحب، کی قیادت میں آغاز کرنے والا یہ کالج جس کے نامورطلبا میں آج کے نامور ڈاکٹرز جیسے ابوالفصل، ابوبکر صدیق، اشرف سلطان شہرت کے حامل ہیں۔ اس کا افتتاح گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق رحمان نے کیا تھا۔اسی کالج کے سٹوڈنٹ اور میرے ہم جماعت، سید اعجاز شاہ بعد میں اسی کالج کے پرنسپل بنے اور کچھ آرمی میں اہم عہدوںکی حیثیت سے کام کرتے رہے۔جن میں نسیم مجید، لیاقت منہاس، سلطان مظفر اصغر بھٹی، اسلم خان کے نام بھی شامل ہیں۔ڈاکڑ مشتاق سلہریا آج بھی ہیلتھ کمیشن میں ڈائریکڑ کی حیثیت میں خدمات انجام دے رہے ہیں پرائیویٹ ڈاکڑوں میں پیڈریاٹیشن دائود خان، امتیاز غوری ، آئی سر جن رانا زاہد علی وقت گزرنے کے ساتھ یاد آرہے ہیں ، سوشل سیکورٹی میں راقم بھی پیتھالوجسٹ کی حیثیت میںبیس گریڈ تک خدمات دے چکا ہے۔بیرون ملک بھی ڈاکڑ مسعود الہی، خالد اقبال، اعظم مہر لطیف وغیرہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔خواتین یا لیڈی ڈاکٹرز قارئین پہلے دو سال تو صرف دو سو ٹوٹل سٹوڈنٹس میں بہت کم تعداد ہوا کرتی تھی جو لگ بھگ پندرہ سے بھی کم تھیں۔ طالب علم رہنمائوں میں سمیع شیخ، شفقت نیازی، لیاقت مہر، راقم بذات خود ایک سیاسی گروپ کا سربراہ بھی تھا اور ہم میں اختلاف ہوتا رہتا تھا۔ اکثر سیاسی تصادم ہونا سٹوڈنٹ سیاست کا خاصہ رہا ہے اور ایسے ہی تصادم و واقعات ہمارے کالج میں بھی ہوتے رہتے تھے۔ڈاکڑ لیاقت چودھری ،جن کا تعلق میرے شہر گوجرانوالہ سے تھا ، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور گرجتے برستے رہا کرتے میری دعا ہے کہ خدا انہیں صحت دے۔ تنگوانی ،راقم ، لیاقت مہر ، خالد اقبال سالانہ تقریری مقابلوں میں شامل ہوتے ۔ اس وقت کے بہاولپور کے ایم پی اے ، تابش الوری یا عوامی نمائندے بھی ہمارے سالانہ اور دوسرے فنکشنز میں شرکت کرتے۔ پہلے تو اول کلاس کے لڑکے ووکیشنل کالج کی عمارت پر اور دوسرے بیچ کے لڑکے پیرا سکول کے ہوسٹل میں رہا کرتے، نئے تعمیر شدہ اقبال ہال میں پہلے دونوں بیچ رہا کرتے ۔عمارت نئی بن رہی تھی اور قریب ہی کالج کی نئی عمارت زیر تعمیر تھی۔ پروفیسر ڈاکڑ نواب محمد خان ہردل عزیز استاد تھے ۔ وہ بانی پرنسپل سید علمدار حسین کے بعد دوسرے پرنسپل بنے تھے۔ آج کل کے دور کے مقابل میس اور کامن روم صاف ، سادہ اور معیاری ہوتے تھے ۔ کالج اور ہوسٹل کی عمارتوں کے پاس ہی اساتذہ کی رہائش گاہیں بھی ہوتیں انتہائی محنتی اساتذہ جن میں آج کل راشد لطیف، اورپاکستان کے پہلے ایف سی پی ایس ، مرحوم ڈاکڑ نور احمد، ذوالفقار برق، ڈاکڑ لقمان لونگ ، ماجد صاحب ، شبیر نارو، پروفیسر فتح محمد، پروفیسر رفیع، افضال، بدر دین، سرجن اقبال خان عباس عسکری وغیرہ کے اتنے نام نہ بیان کرنا مقصود ہوتا ، اگر آج گولڈن جوبلی کا سال نہ ہوتا۔ ادبی رسالہ کے ہمارے وقت کے ایڈیٹر طاہر ، اچھے اخلاق کے حامل اور کئی احباب اب اس دنیا میں نہیں جن کویاد کر کے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میرا ہمسایہ ، رفیع اکثر موسیقی کی سر لگاتا جو آج بھی مجھے ان کی یاد دلاتی ہے، ڈاکٹر دائود، جو جھنگ سے ہیں، ڈراموں میں اپنی مثال آپ تھے ۔ سیاست میں راقم کے علاوہ شفقت نیازی، خالد اقبال، طارق قاضی، لیاقت مہر، سہیل کاظمی، اعجاز عالم مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ ابتدا میں تین سیاسی گروپ ایگل ، پینتھر ، یوایس ایف کے نام سے سیاست میں متحرک ہوتے اور حصہ دار ہو تے ۔ہمارے استاد ڈاکٹر مختار ، ڈاکٹر رضیہ، و ڈاکٹر لقمان ابتدائی ڈیمانسٹریٹر میں شامل تھے ، اگرچہ لقمان صاحب کا اچانک انتقال ہو گیا تھا۔ ان دنوں جگمگ کرتا ہوسٹل ہوتا جو جنگل میں منگل کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا تھا۔آج جب اس کالج کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے، تو اس چھوٹی سی عمارت سے شروع ہونے والی یہ آج کی عظیم الشان درسگاہ کو آغاز میں کندھا دینے والے تمام افراد اور بعد میں آنے والے نامور ڈاکٹروںاورافراد کو ہدیہ تبریک پیش کرنے پر راقم کو مجبور کرتی ہے۔