بھارتیہ جنتا پارٹی سیاست کے پردہ میں دہشت گرد جماعت ہے۔ بھارت میں مسلمان تو اس کا نشانہ ہیں ہی ہندو بھی جو سیاسی مخالفت کا مظاہرہ کریں اس کے کارکن اس کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ان کی سنگدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مخالفین کے اجتماعات پر دستی بموں سے حملے کرتے ہیں ۔ فروری میں مغربی بنگال کے وزیر ذاکر حسین جو وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی کی پارٹی کے لیڈراور کابینہ کے رکن ہیں بی جے پی کے کارکنوں نے گوسابا شہر کے ریلوے سٹیشن پر انہیں اس وقت نشانہ بنایا جب وہ ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم پر موجود تھے کہ ان پر دستی بم پھینکا گیا۔
مغربی بنگال میں ہونے والے الیکشن میں بی جے پی نے ہر قسم کے تشدد اور غنڈہ گردی سے جیتنے کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل شروع کر رکھا ہے لیکن دوسروں کے لئے گڑھا کھودے والے کبھی خود بھی اس میں گر جا یا کرتے ہیں اور ایسا ہی ہوا جب بی جے پی کے امیدوار برون پرمانائیک ایک مکان میں اپنی نگرانی میں دستی بم تیار کروا رہا تھا کہ پہلے سے تیار شدہ بم پھٹ گیا جس سے ایک کارکن ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے جن میں سوہن دپب ناتھ، وکرم سہل، اربن دیوناتھ، سواپن کردولی اور مہادیو نائیک شامل ہیں ۔ حکومتی پارٹی ٹی ایم سی کے امیدوار جنتا نسکرنے بی جے پی امیدوار کے خلاف مقدمہ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پاکستان یا چین جیسے کسی دشمن ملک کی جانب سے نہیں بلکہ ان دنوں بھارت کے سب سے قریبی دوست ملک امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں انسانی حقوق کی تنظیم کے حوالے سے فریڈم ان دی ورلڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میںاقلیتوں کے ساتھ بدترین امتیاز برتا جار ہا ہے۔ حکومت کے مخالفین ، ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص مسلمان صحافیوں پر جھوٹے الزام میں ملک دشمنی کے مقدمات بنادیئے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بہت سے واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ادھر امریکی تھنک ٹینک نے بھارت کی ستمگری کا سوال اٹھایا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کا ہوا کھڑا کر کے اسلام دشمن ممالک نے اپنے ناپاک عزائم کو بروئے کار لایا ہے۔ مسلم ملکوں کے علاوہ جن ملکوں میں مسلمان رہتے ہیں وہاں انہیں دہشت گردی کے حوالے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بعض ممالک اسلام کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں سے دراصل مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔بعض ممالک اسلام کا منفی تاثر ابھار کر مسلمانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی جان و مال کی سیکورٹی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ بعض ممالک نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد کو مستقل و جائز قرار دے دیا ہے۔ اسلام دشمنی کے شکار ان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف تصوراتی دیوار تعمیر کر دی گئی ہے۔ جس سے ان میں رہنے والوں کے انسانی حقوق پامال کئے جا رہے ہیں اور ریاست آنکھیں بند کر کے سب دیکھ رہی ہے۔
مسلمانوں کی ایک تنظیم کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001 میں امریکہ میں نائین الیون کے بعد اسلام کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ چھوٹی سی جماعت کی کاروائی کو امت مسلمہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک نے مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے کھل کر کہا ہے کہ بھارت میںمسلمانوں کو بلی کا بکرا(قربانی کا بکرا) بنانے کا عمل جاری ہے۔ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کو غدار قرار دینے کا عام حکومتی چلن ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں اور بالخصوص مسلمان طالبات کو اعلیٰ درس گاہوں میں داخلہ نہیں دیا جا رہا ۔ صرف وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، طالبات کیلئے حصول تعلیم ممکن ہے۔ رپورٹ میںبھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے مودی سرکار پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ بھارت کے خلاف مؤقف رکھنے والا ملک نہیں ہے اس کے باوجود امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ بھارت جزوی طور پر بی جے پی کا غلام ملک بن چکا ہے۔ یہ آزاد بھارت کی تاریخ پر کاری ضرب ہے۔ رپورٹ میں مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی دھمکیوں ، گائے کے گوشت کی آڑ میں تشدد، لو جہاد، سی اے اے اور این آر سی جیسے قانون کے ذر یعے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے، جس سے ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں نے تعلیمی شعبے میں آگے جانے کی کوشش کی تو اسے یوپی ایس سی جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو معاشی بدحالی کا شکار کرنے کیلئے انہیں تجارت میں کمزور کرنے کے حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ کسی کا کاروبار چلنے لگے تو جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعے فساد کروا کر اس کی دکان کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں اور قانون سازی کے شعبوں میں انہیں کم سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر نمائندگی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کی اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو جزوی طورپر بی جے پی کا غلام ملک قرار دیا گیا ہے۔
ایسی حقیقت پر مبنی رپورٹوں پر مودی سرکار سخت چراغ پا ہے اور اسے بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا نام دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے حلقوں میں ان رپورٹوں کو بھارت دشمنی بھی قرار دیا گیا ہے۔حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت سے اس سلسلے میں احتجاج کرے لیکن مودی حکومت امریکہ سے احتجاج کیسے کر سکتی ہے۔ جبکہ ان رپورٹوں میں جس سنگین صورتحال کو سامنے لایا گیا ہے اس کے مظاہرے ہر روز بھارت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
بی جے پی کی مسلمان دشمنی اور شدید تعصب کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ اردو زبان کو بھی مسلمانوں کی زبان قرار دے کر مخالفت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ایسا حکومتی سطح پر ہو رہا ہے حالانکہ بھارتی آئین میں جن چودہ زبانوں کو مساوی قرار دیا گیا ہے ان میں اردو بھی شامل ہے۔ حالانکہ اردو صرف مسلمانوں کی نہیں کروڑوں ہندووں کی بھی زبان ہے۔ جبکہ بہت سے علاقوں میں سنسکرت کے الفاظ کی آمیزش کے ساتھ اردو ہی بولی جاتی ہے۔ بھارت میں اردو فلمیں بھی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں اس کے باوجود اردو سے پرخاش شرمناک تعصب ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ رامپور کی جوہر یونیورسٹی کے خلاف مضحکہ خیز مہم جاری ہے کہ اس میں مسلمان نوجوانوں کو بھارت دشمنی کا درس دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس یورنیورسٹی میں مسلمانوں سے زیادہ طلبا و طالبات ہندو ہیں۔ اس طرح خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی اور لینگویجز کے لوگو سے اردو کے الفاظ ہٹا دیئے گئے ہیں۔ مقامی گورنر اور چانسلر انندی بین پٹیل تقسیم اسناد تقریب میں آئی تونائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ونیش شرما کو جو تعلیم وزیر بھی ہیں، کو ہدایت دی کہ خواجہ معین الدین چشتی اردو، فارسی، عربی یونیورسٹی سے اردو، فارسی اور عربی کے الفاظ ہٹا دیئے جائیں کیونکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔